میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) میانمار کی سابقہ جمہوری حکومت نے مسلم مخالف انتہا پسند بدھ مذہبی رہنما کو نومبر میں گرفتار کیا تھا۔ فوجی حکومت نے کسی وضاحت کے بغیر ان پر عائد تمام الزامات واپس لے لیے ہیں۔
میانمار کے فوجی جنتا نے چھ ستمبر پیر کے روز ملک کے کٹر مسلم مخالف اور انتہا پسند بودھ مذہبی پیشوا اشین ویراتھو کو رہا کر دیا۔ فوجی حکومت نے ان پر عائد نفرت انگیز بیانات اور بغاوت جیسے الزامات واپس لے لیے ہیں تاہم اس نے اپنے فیصلے کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔
اشین ویراتھو کے نفرت انگیز بیانات اور انتہا پسندانہ نظریات کا حال یہ ہے کہ ٹائم میگزین نے انہیں سن 2013 میں ”بدھسٹ بن لادن” کا خطاب دیا تھا۔
ویراتھو نے سن 2019 میں معزول رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف بھی بعض توہین آمیز اور نازیبا بیانات دیے تھے جس کے لیے ان پر حکومت سے بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ روپوش ہو گئے تھے۔ لیکن گزشتہ نومبر میں انہوں نے خود کوحکام کے حوالے کردیا، جس کے بعد ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔
سوچی کی حکومت نے توہین عدالت اور عوام میں بے چینی اور افراتفری پھیلانے کے الزام میں انہیں جیل بھیج دیا تھا۔ ان کی رہائی سے متعلق ایک فوجی ترجمان نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ ان کے خلاف، ”کیس کو بند کر دیا گیا ہے اور آج شام کو انہیں رہا کر دیا گیا۔”
تاہم اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ فوجی حکومت نے آخراچانک ان پر عائد سنگین الزامات واپس کیوں لے لیے اور انہیں علاج کے لیے فوجی اسپتال میں کیوں بھرتی کیا گیا ہے۔
ویراتھو میانمار میں بدھ قوم پرست اور اسلام مخالف بیان بازی کے لیے معروف ہیں۔ ان کی انتہا پسندی کی بیشتر کارروائیاں اور بیانات اقلیتی روہنگیا مسلمانوں خلاف رہے ہیں۔ مغربی صوبے راکھین میں سن 2012 میں بودھوں اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان مذہبی فسادات بھڑک اٹھے تھے اور اسی کے بعد انہیں زبردست شہرت حاصل ہوئی۔
ان کے اسلام مخالف نفرت انگیز بیانات کے تناظر میں سن 2017 میں میانمار میں بودھوں کے سب سے بڑے ادارے ‘نیشنل مونک کونسل’ نے ایک برس کے لیے ان پر تبلیغ کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم اس پابندی کا بھی ان پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی وہ اپنی پہلی شکل میں واپس آ گئے۔
ویراتھو قوم پرست ریلیوں کے ہیرو تھے جنہیں میانمار کی فوج کا حامی مانا جاتا ہے۔ وہ بدعنوانی کا حوالہ دیتے ہوئے ملک کے آئین کو بدلنے کی بھی بات کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے مذہب کے نام فرقہ پرستی پھیلانے کی بھی تمام کوششیں کیں جس کی وجہ سے سن 2018 میں فیس بک نے ان کا اکاؤنٹ بھی بلاک کر دیا تھا۔
اس برس فروری میں میانمار کی فوجی جنتا نے بغاوت کرتے ہوئے آنگ سان سوچی کی جمہوری حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔ آنگ سان سوچی فوجی بغاوت کے بعد سے اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت کے متعدد دیگر رہنما بھی گھروں میں نظر بند ہیں یا جیلوں میں قید ہیں۔
فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں افراتفری کا ماحول رہا ہے اور اس کے خلاف مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں جبکہ فوج نے بغاوت کے خلاف احتجاج کو دبانے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔
ملک کی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور فوج احتجاج کرنے اور مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کر رہی ہے۔ فوجی کارروائیوں میں اب تک 800 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بغاوت کے بعد سے فوج اور میانمار کے متعدد نسلی باغی گروپوں کے درمیان بھی جھڑپیں جاری ہیں، جس کی وجہ سے لاکھوں شہریوں کو اپنے گھر چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔