تحریر : محمد صدیق پرہار سچ تو یہ ہے کہ اس دور میں مسلمان جہاں بھی آباد ہیں وہ کسی نہ کسی کے ظلم کا شکار ضرور ہیں۔ دنیاکے تمام ممالک میں مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم کے انداز اور حربے مختلف ضرور ہیں تاہم اس ظلم میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی ہے۔جس کا جتنابس چلتا ہے وہ اتناہی مسلمانوںپرظلم کرتاہے۔مسلمانوںپرمظالم کی تاریخ توصدیوںپرانی ہے۔موجودہ دورمیں برماکے مسلمانوں پرسب سے زیادہ ریاستی ظلم ہورہا ہے۔
برما کے مسلمانوں پرمظالم یہ کوئی دوچارسال سے نہیں ہورہے بلکہ ان مظالم کی تاریخ سال ہاسال پرانی ہے۔سال دوہزارپندرہ عیسوی میںانٹرنیٹ پراپ لوڈکی گئی ایک ویڈیوکے مطابق برماکی حکومت وہاںکے مسلمانوں کویہ کہہ کرنہیں رہنے دیتی کہ ان کے آبائواجدادبرطانوی دورحکومت سے پہلے آبادنہ تھے جبکہ مسلمانوںکاکہنا ہے کہ ان کے آبائواجدادیہاں صدیوں سے آبادہیں۔آٹھویں صدی عیسوی میں خلیفہ ہارون رشیدکے دورمیں مسلمان تاجرتجارت کی غرض سے اس خطے میں آئے۔ ان مسلمان تاجروںنے تجارت کے ساتھ ساتھ یہاں کی مقامی آبادی کواسلامی تعلیمات سے بھی روشناس کرایا۔ان تعلیمات سے متاثرہوکریہاںکی کثیرآبادی نے اسلام قبول کرلیا۔سال چودہ سو تیس عیسوی میں اراکان کے بادشاہ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔اراکان کے بادشاہ نے ملک میںہزاروںمساجداورمدارس قائم کیے۔یہاں ساڑھے تین سوسال تک مسلمانوںکی حکومت رہی۔اراکان کی کرنسی پرکلمہ طیبہ لکھاہواہوتاتھا۔
انیسوی صدی عیسوی تک مسلمان یہاں سکون سے رہ رہے تھے۔ایسٹ انڈیاکمپنی نے جب اس خطے پرقبضہ کیاتواس نے تقسیم کرواورحکومت کروکے بدنام زمانہ اصول کے تحت اراکان میں بدھوں کومسلمانوں کے خلاف بھڑکاناشروع کردیا۔سال انیس سوبیالیس میں یہاں پہلے مسلم کش فسادات ہوئے ۔ چالیس دنوںمیں ڈیڑھ لاکھ مسلمانوںکوشہیدکردیاگیا۔١٩٣٧ء میں برمانے انگریزوں سے آزادی حاصل کرلی۔ ١٩٤٧ء میں انگریزجب اس خطے سے واپس گئے تواس وقت مسلم کش فسادات میں ہزاروںمسلمانوںکوشہیدکردیاگیا۔سال انیس سوانچاس سے اب (سال دوہزارپندرہ ) تک برماکے مسلمانوں کے خلاف چودہ فوجی آپریشن ہوچکے ہیں۔جن میں سے ١٩٧٨ء کاآپریشن بدترین تھا۔ جس میں ہزاروں مساجداورمدارس کوبھی شہیدکردیاگیا۔اس آپریشن کے نتیجہ میں تین لاکھ برمی مسلمان بنگلہ دیش، دولاکھ پاکستان جبکہ چوبیس ہزارملائیشیامیں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔برمامیں لائوڈ سپیکرپراذان دینے پرپابندی ہے۔ مسلمانوںکونمازاداکرنے سے روکاجارہا ہے۔مسلمان کوئی جانورذبح نہیں کرسکتے، سرکاری اجازت کے بغیرشادی نہیں کرسکتے، بچے پیدانہیںکرسکتے،ایک سے دوسرے شہرمیںنہیںجاسکتے۔یہ سال دوہزارپندرہ تک کی برماکے مسلمانوںکی حالت زارکی دردبھری داستا ن ہے۔
اس وقت دوسال کاعرصہ اورگزرگیا ہے۔ برماکے مسلمانوں پرمظالم میں کبھی کمی نہیں آئی۔برماکے مسلمان اس وقت بھی سمندرمیں بے یارو مددگار تھے اب بھی سمندرمیں بے یارومددگارہیں۔اس وقت بھی بنگلہ دیش کی حکومت انہیں قبول کرنے کوتیارنہیں تھی اوراب انہیں قبول کرنے سے انکاری ہے۔ روہنگیا مسلمانوں پرجس طرح ظلم کیاجارہا ہے اس کی تصاویرمیڈیامیںتونہیںدکھائی جاسکتیں تاہم فیس بک، واٹس اپ اوردیگرسوشل میڈیاپرعام ہوچکی ہیں ، ان تصاویر کودیکھنے کی کسی صاحب دل شخص میں ہمت نہیں ہے۔ پانچ ستمبردوہزارسترہ کے ایک قومی اخبارمیں برماکے مسلمانوں پرظلم کی تازہ ترین داستان کچھ یوں ہے کہ میانمارمیں روہنگیامسلمانوںکی آبادیوںپرفوج ملیشیاکے حملوںکے بعدنوے ہزارکے قریب مسلمان جان بچاکربنگلہ دیش کی سرحدپرپہنچ گئے ہیں۔لیکن بنگلہ دیش کی طرف سے کوئی بھی مثبت جواب نہیں پایا۔میانمارمیںمسلمانوں کے اڑھائی ہزارسے زیادہ گھروںکوآگ لگادی گئی۔صرف تین دن میں تین ہزارمسلمان شہیدکردیے گئے۔ایسے میں ترکی میدان میںا گیا میانمارکی حکومت کی امدادکی بندش کاعندیہ دیتے ہوئے اعلان کیاہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کوپناہ دے ان پناہ گزینوں کے تمام اخراجات ترک حکومت اداکرے گی۔یہ اعلان ترکی کے وزیرخارجہ نے عیدالاضحی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوںنے بتایا کہ ترک صدرنے روہنگیاکے مسلمانوںپرہونے والے مظالم کانوٹس لے لیا ہے۔اورہم نے فوری طورپراسلامی تعاون تنظیم کومتحرک کیا ہے ۔اسی مسئلے پرایک کانفرنس کاانعقادبھی کیاجائے گا۔ہم اس مسئلے کافیصلہ کن حل چاہتے ہیں۔برماکے مسلمانوں پرہونے والے مظالم روکنے کے لیے ترک حکومت نے اپنانقطہ نظرواضح کردیاہے۔
اس سے قبل میانمارمیںمسلمانوںپرہونے والے تشددپرترک وزیرخارجہ نے اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل اورمشاورتی کمیشن کے سربراہ کوفی عنان سے فون پررابطہ کیااورتمام ترصورت حال پربات کی۔میانمارکی فوج نے روہنگیامیںمسلمانوں سے جینے کاحق بھی چھینناشروع کردیا ہے۔دوہزارچھ سوگھروںکوآگ لگادی گئی۔وہاں سے جان بچاکربھاگنے کی کوشش کرنے والے مسلمانوں کے سرقلم کیے جارہے ہیں۔مظالم اپنی انتہاکوپہنچنے کے بعدسعودی شاہ بھی میدان میںآگئے۔عرب میڈیاکے مطابق سعودی عرب نے میانمارکے روہنگیامسلمانوں پرتشددکی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں روہنگیامسلمانوں پرمظالم رکوانے کے لیے قراردادلانے کااعلان کیاہے۔قراردادمیںمظالم اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکی مذمت کی جائے گی اورمطالبہ کیاجائے گاکہ روہنگیامسلمانوں پروحشیانہ مظالم کانوٹس لیاجائے۔سعودی عرب کے اقوام متحدہ کے مشن نے ایک ٹوئیٹ میںکہا ہے کہ روہنگیامسلمانوں کے مسائل کے حل کی خاطراوربے حسی کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیںجاری رکھیں گے۔سعودی عرب نے سیکیورٹی کونسل کے ارکان سے رابطہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پروحشیانہ مظالم کانوٹس لے۔جس کے بعداقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے میانمارحکومت کی مذمت کی ہے۔پاکستان نے روہنگیامسلمانوںکے قتل عام اورجبراً نقل مکانی کی رپورٹس پرشدیدتحفظات کااظہارکرتے ہوئے میانمارحکومت سے مسلمانوںکے حقوق کے لیے اقدامات کرنے کامطالبہ کیاہے ۔ دفترخارجہ کے بیان میں ترجمان نفیس زکریا نے کہا کہ عیدالاضحی کے موقع پرپاکستان کوروہنگیامسلمانوںکے قتل اورنقل مکانی کی رپورٹس پرشدیدتحفظات ہیں ۔
بیان میںکہاگیا ہے میانمارکی حکومت معاملے کی تحقیقات کرائے اورذمہ داروںکے خلاف کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوںکے حقوق کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔پاکستان عالمی برادری بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ مل کرروہنگا یامسلمانوںکے ساتھ اظہاریکجہتی اوران کے حقوق کے مفادات کاتحفظ کرتارہے گا۔ہزاروںمسلمانوں کے قتل عام اورلاکھوں کے ترک وطن کے بعداقوام متحدہ کی جانب سے بالآخرپہلابیان آہی گیا۔نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرمیں ایک پریس کانفرنس کے دوران سیکرٹری جنرل انتونیوگوتیرش نے میانمارکی حکومت سے تشدد فوری بندکرنے کامطالبہ کیا ہے۔انہوںنے خبردارکیا کہ روہنگیابحران پورے خطے کوغیرمستحکم کرسکتاہے۔سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ روہنگیا مسلمانوںکے بحران کے حل کے لیے تجاویزدی جائیں ،مالدیپ کی حکومت نے میانمارسے تجارتی تعلقات ختم کرنے کااعلان کیاہے۔
میانمارکے دورے پرپہنچے بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی نے آنگ سان سوچی سے ملاقات میں روہنگیابحران پربھی بات کی۔بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینی واجدنے سلامتی کونسل کولکھے گئے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ میانمارکی حکومت پرتحمل اوربرداشت کی پالیسی اپنانے کے لیے دبائوڈالے، انہوںنے عالمی راہنمائوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بحران جل کرنے کے لیے میانمارحکومت پردبائوڈالیںترکی اورانڈونیشیانے روہنگیامسلمانوںکے بحران کے حل کے لیے سفارتی کوششیں تیزکردی ہیں۔ترک صدرطیب اردوان نے میانمارکی راہنماآنگ سان سوچی کوفون کیااورمسلمانوںکی نسل کشی پرمسلم ممالک کی تشویش سے آگاہ کیا۔انڈونیشیاکی وزیرخارجہ میانمارپہنچ گئی ہیں جہاں وہ آنگ سان سوچی اورفوجی کمانڈروں سے ملیں گی۔آنگ سان سوچی کاجواب بھی سامنے آگیا ہے کہ سرکاری میڈیامیں شائع خبرکے مطابق آنگ سان سوچی نے طیب اردوان کوبتایا کہ ان کی حکومت نے رخائن صوبے کے تمام افرادکوتحفظ فراہم کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے،اخبارکے مطابق آنگ سان سوچی نے کہا کہ کئی افرادسے بہت زیادہ بہترہم جانتے ہیں کہ انسانی حقوق اورجمہوری تحفظ سے محروم ہوناکیاہوتاہے۔سوچی نے کہا کہ اس لیے ہم اس بات کویقینی بناتے ہیں کہ ہمارے ملک کے تمام افرادکے حقوق کاتحفظ ہوجونہ صرف سیاسی ہوسماجی اورانسانی تحفظ بھی فراہم کیاجائے۔
آنگ سان سوچی کایہ بیان توروہنگیامسلمانوں کے زخموں پرنمک چھڑکنے سے بھی کہیں زیادہ سخت ہے جس میں اس نے کہا کہ بہت سی غلط خبریں اورتصاویرگردش کررہی ہیں۔جوکہ غلط اطلاعات پرمبنی ہیں تاکہ دہشت گردوںکے مفادات کے لیے مختلف برادریوں کے درمیان مسائل میں اضافہ کیاجائے۔کس ڈھٹائی کے ساتھ آنگ سان سوچی نے روہنگیامسلمانوں پرکیے گئے ظلم سے یہ کہہ کرانکارکردیا ہے کہ ہم اس بات کویقینی بناتے ہیں کہ ہمارے ملک کے تمام افرادکے حقوق کاتحفظ ہوجونہ صرف سیاسی ہوسماجی اورانسانی تحفظ بھی فراہم کیاجائے۔ اس سے بڑی ڈھٹائی اورکیاہوسکتی ہے کہ اس نے ظلم کی خبروں اورتصاویرکوبھی غلط قراردے دیا ہے۔یہ کہہ کراس نے دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔اس نے تمام افرادکوتحفظ دینے کاکہا ہے مسلمانوں کااس نے نام ہی نہیںلیامسلمانوں کوتواس کی حکومت میانمارکاشہری ہی نہیں سمجھتی۔ شہبازشریف نے کہا ہے کہ میانمارمیںمسلمانوںکاقتل عام نسل کشی کی بدترین مثال ہے۔عالمی برادری ، مسلم دنیااوراقوام متحدہ روہنگیامسلمانوں پرظلم وستم پرچشم پوشی کی بجائے میانمارحکومت پردبائوڈالے۔روہنگیامسلمانوں پرمظالم کے خلاف قومی وصوبائی اسمبلیوں میں قراردادیں جبکہ سینیٹ میں تحریک التواء جمع کرادی گئی ہے۔ بلاول بھٹونے مطالبہ کیا ہے کہ میانمارمیںمسلمانوںکاقتل عام بندکیاجائے۔پاکستان سنی تحریک نے حکومت پاکستان سے جہادکااعلان کرنے کامطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سنی تحریک کے کارکنان روہنگیامسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کٹ مرنے کوتیارہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی نے پندرہ ہزارروہنگیامسلمانوں کے اخراجات برداشت کرنے کااعلان کیا ہے۔ مولاناالیاس قادری نے بھی روہنگیامسلمانوں پروحشیانہ ظلم کی مذمت کی ہے ۔ علامہ محمدرضاثاقب ایک جلسہ میں روہنگیامسلمانوں کاتذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔بحری ٹائون کے ملک ریاض نے روہنگیامسلمانوں کے لیے ایک ارب روپے کی امدادکااعلان کیا ہے ۔بہت سے سیاسی راہنمائوںنے بھی روہنگیامسلمانوں پروحشیانہ ظلم کی مذمت کی ہے اوراقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان مظالم کانوٹس لے۔
میانمارمیںمسلمانوں پرظلم وستم پرعالمی ومسلمان برادری نے انگڑائی لی توہے تاہم دونوں طرف سے مظالم کے تناسب سے انتہائی کمزورردعمل سامنے آیا ہے۔ حیرت کی بات تویہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی میانمارحکومت سے مطالبہ کررہے ہیں۔اتنے بڑے ادارے کاسربراہ بھی صرف مطالبوں پرہی اکتفاکرے تویہ اندازہ ہوجاناچاہیے کہ عالمی برادری کومسلمانوں خاص طورپر میانمارکے مسلمانوں کے مسائل سے کتنی دلچسپی ہے۔وہ امریکہ جوپاکستان کوپتھرکے زمانے میں دھکیلنے کی دھمکی دے سکتاہے، افغانستان، عراق، شام اوردیگرمسلم ممالک پرچڑھائی کرسکتاہے، ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے غم میں پاکستان اورایران پرپابندیاں لگاسکتاہے، پاکستان پردہشت گردوںکوپناہ دینے کاالزام لگاسکتاہے کیا وہ امریکہ میانمارکی حکومت سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمانوں پرظلم بند کرے ۔ اس نے اس ظلم وستم پرایسے چپ سادھ رکھی ہے جیسے کچھ ہواہی نہ ہو۔جوظلم میانمارمیں مسلمانوں پرہورہا ہے اس سے نوے فیصدسے بھی کم ظلم کسی مسلمان ملک میں غیرمسلم پرہورہا ہوتا تواب تک اس مسلمان ملک پرپابندیاں لگ چکی ہوتیں۔اس ملک کواب تک دہشت گرد ملک قراردے کراس کی حکومت کے خلاف جنگی جرائم کامقدمہ بھی چلایاجاچکاہوتا۔میانمارمیں چونکہ مسلمانوں پرظلم ہورہا ہے اس لیے ایساکچھ بھی نہیں ہوگا۔انسانی حقوق کی وہ تنظیمیں جوپاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال اورغیرت کے نام پرقتل کے نام پرآسمان سرپراٹھائے رکھتی ہیں انہوںنے میانمارکے مسلمانوں پرظلم پرآنکھیں بندکررکھی ہیں ۔جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ تنظیمیں اورممالک دہشت گردی، ظلم اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف نہیںمسلمانوں کے خلاف ہیں۔مسلمانوں سے ہمدردی ہوتی تواب تک میانمارکی حکومت پرپابندیاں لگائی جاچکی ہوتیں اس کے خلاف جنگی جرائم کامقدمہ چلایاجاچکاہوتا۔ ترکی،مالدیپ ،انڈونیشیااوربنگلہ دیش نے میانماربحران حل کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے ہیں۔مسلم ممالک اپنی کمزوریوںکی وجہ سے اورکچھ نہیں کرسکتے روہنگیامسلمانوں کوپناہ تودے سکتے ہیں، تمام مسلمان ممالک روہنگیامسلمانوں کوآپس میں تقسیم کرلیں توہرایک کے حصہ میںچند ہزار روہنگیامسلمان ہی آئیں گے ۔اگران مظلوم مسلمانوں کو کسی ایک جگہ بسایاجائے اوران کے اخراجات تمام مسلم ممالک مل کربرداشت کریں تویہ اوربھی آسان حل ہے۔یہ اقدام کرلیاجائے تومخیرحضرات اورمذہبی ، سماجی تنظیمیں بھی تعاون کریں گی۔