میانمار (جیوڈیسک) میانمار میں 2017ء کے اواخر میں گرفتار کیے جانے والے روئٹرز کے دونوں صحافیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ اٹھائیس سالہ کیاؤ سوئے اُو اور بتیس سالہ والون کو 2019ء کا پولٹزر پرائز بھی دیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے صحافی کیاؤ سوئے اُو اور والون نے پانچ سو گیارہ دن جیل میں گزارے ہیں۔ آج جب یہ دونوں ینگون کے قریب واقع ایک جیل کے دروازے سے باہر نکلے تو ذرائع ابلاغ کے نمائندے اور ان کے خیر خواہ ان دونوں کے استقبال کے لیے وہاں موجود تھے۔
اس موقع پر مسکراتے چہرے کے ساتھ والون نے انگھوٹے کا اشارہ کرتے ہوئے علامتی طور پر اپنی کامیابی کا اظہار کیا۔
والون نے کہا کہ وہ ان کی رہائی کے لیے بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں پر بہت شکر گزار ہیں، ’’میں بہت خوش ہوں کہ میں اپنے اہل خانہ اور اپنے ساتھیوں سے ملاقات کروں گا۔ میں نیوز روم میں جانے کے لیے بے تاب ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایک صحافی کے طور پر آگے بھی اپنا کام کرتے رہیں گے۔
میانمار کی ایک عدالت نے ان دونوں صحافیوں کو ستمبر میں سات سات برس قید کی سزا سنائی تھی تاہم بعد میں سپریم کورٹ نے اپریل میں ان کی سزا کے خلاف کی جانے والی آخری اپیل مسترد کر دی تھی۔ ان دونوں کو ریاستی راز افشاء کرنے پر یہ سزا سنائی گئی تھی۔
کیاؤ سوئے اور والون کو اس وقت حراست میں لیا گیا تھا، جب وہ ملکی فوج کی ایک کارروائی میں روہنگیا اقلیت سے تعلق رکھنے والے دس مردوں کی ہلاکت کے واقعے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کیاؤ سوئے اُو اور والون کی گرفتاری پر بین الاقوامی سطح پر شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا۔ میانمار کی رہنما اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی پر بھی اس سلسلے میں کڑی تنقید کی گئی تھی۔
قید کے دوران انہیں پولٹزر پرائز بھی دیا گیا تھا۔ پولٹزر پرائز کی تقسیم کا سلسلہ ہنگری میں پیدا ہونے والے امریکی صحافی جوزف پولٹزر نے شروع کیا تھا۔ یہ انعام اب مجموعی طور پر 20 سے زائد شعبوں میں دیا جاتا ہے لیکن آج بھی ان انعامات کا محور وہ صحافی اور میڈیا ادارے ہی ہوتے ہیں، جو اپنے شعبے میں بے مثال پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتے ہیں۔