میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی سربراہ نے میانمار کی حکمراں عسکری قیادت کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوجی جنتا اپوزیشن کے خلاف غیر متناسب طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے چھ جولائی منگل کے روز خبردار کرتے ہوئے کہا کہ میانمار میں بڑھتا ہوا تشدد مکمل خانہ جنگی میں تبدیل ہو سکتا ہے اور اس سے جنوبی ایشیا کے ایک وسیع خطے کو غیر مستحکم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔
اقوام متحدہ کے کمشنر نے کیا کہا؟ کمشنر مشیل بیچلیٹ نے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کونسل کو بتایا، ”پورے ملک میں تشدد اور مصائب کے سبب پائیدار ترقی کو تباہ کن خطرات لاحق ہیں اور اس سے ریاست کی ناکامی یا پھر وسیع تر خانہ جنگی کے خدشے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں ہونے والے تباہ کن واقعات بڑے پیمانے پر عدم تحفظ کی فضا پیدا کر رہے، اور اس کے اثرات خطے کے دیگر وسیع تر علاقوں پر مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔”
اس برس یکم فروری کو میانمار کی فوج نے سویلین حکومت سے بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور حکمراں نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی سربراہ آنگ سان سوچی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو حراست میں لے لیا تھا۔ اس کے بعد سے فوج کے سربراہ من انگ ہلینگ ہی ملک کے سربراہ ہیں۔
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی سربراہ کا کہنا تھا کہ بغاوت کے بعد سے ہی فوج نے شہری آبادی پر منظم طریقے سے وسیع پیمانے پر حملہ جاری رکھا ہے۔ فوجی جنتا نے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے خلاف بھی پرتشدد کارروائیاں کی ہیں۔
طبی کارکنوں کا کہنا ہے کہ فوج نے طبی عملے اور ڈاکٹروں پر بھی حملے کیے ہیں اور ان میں سے بہتوں کو ریاست دشمن بتا کر ان کا قتل کر دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی کمشنر کے مطابق بغاوت کے بعد سے اب تک تقریباً نو سو افراد کا قتل کیا جا چکا ہے جبکہ دو لاکھ سے زیادہ افراد کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوجی بغاوت کے بعد ملک میں بعض مسلح مخالف گروپ وجود میں آئے ہیں اور سکیورٹی فورسز نے ایسے مسلح اپوزیشن گروپوں کے خلاف غیر متناسب قوت کا استعمال کیا ہے۔
فوجی جنتا پر دباؤ کے لیے اتحاد ضروری بیچلیٹ نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ، ”میانمار کے عوام پر مسلسل حملے روکنے اور ملک کو جمہوریت کی طرف واپس لانے کے لیے فوج پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے متحد رہیں۔”
ایسو سی ایشن آف ساتھ ایشیئن نیشنز (اے ایس ای اے این) نے اپریل میں میانمار کے فوجی سربراہ سے ملاقات کی تھی اور اس بحران کو حل کرنے کے لیے پانچ نکاتی منصوبے پر اتفاق ہوا تھا۔ اس منصوبے کے تحت فوری طور پر تشدد بند کرنے اور عوام کے مفاد میں پر امن حل کے لیے تعمیری مذاکرات کی بات کہی گئی تھی۔
گزشتہ روز انڈونیشیا کے دورے پر جاتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ ماسکو اس منصوبے کی حمایت کرتا ہے۔
میانمار میں بغاوت اور اس کے بعد ہونے والے واقعات سے پڑوسی ملک تھائی لینڈ اور بھارت بھی متاثر ہوئے ہیں جہاں فرار ہو کر بڑی تعداد لوگ پناہ کے لیے پہنچے ہیں۔ کئی مغربی ممالک نے فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے میانمار کی فوجی قیادت پر پابندیاں عائد کی ہیں۔