سری لنکا میں گردے کی ایک پُراسرار بیماری گزشتہ 20 برسوں کے دوران 20 ہزار انسانوں کی جان لے چُکی ہے۔ اس عارضے کے سبب ہلاک ہونے والے اکثر مریضوں کی عمر 30 سے 40 سال کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
Sri Lanka Mystery Kidney Killer
ماہرین کے اندازوں کے مطابق سری لنکا میں گردے کی اس مہلک بیماری کا شکار ستر ہزار سے چار لاکھ کے قریب باشندے ہوئے ہیں۔
صبح سویرے کا وقت ہے سینکڑوں افراد برگڈ کے ایک درخت کے سائے کے نیچے قطار لگائے کھڑے ہیں۔ یہ اپنے خون کا معائنہ کروانا چاہتے ہیں۔ تاہم محض تین نرسیں ان کا بلڈ ٹیسٹ کرنے کے لیے مودجود ہیں۔ گرد و غبار سے اٹے ہوئے اس ہیلتھ سینٹر کے باہر بھی بڑی تعداد میں سری لنکا کے باشندے اپنے بنیادی طبی معائنے کرانے کے لیے جمع ہیں جہاں ان لوگوں کا بلڈ پریشر وغیر چیک کیا جا رہا ہے اور یہ اپنے پیشاب کے نمونے لیے اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
ایک دیہات کے قریب ان ایک ہزار افراد میں سے زیادہ تر چلچلاتی دھوپ میں کئی گھنٹوں کی مسافت پیدل طے کر کے یہاں تک پہنچیں ہیں۔ یہ سب اس لیے یہاں نہیں پہنچے کہ وہ خود کو علیل محسوس کر رہے ہیں بلکہ انہیں گُردے کی اُس پُر اسرار بیماری کا خوف ہے جس کا شکار ہو کر چاول کی پیداوار والے علاقے کے ہزاروں کسان ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس عجیب و غریب بیماری سے سب سے زیادہ متاثرہ دیہات میں ہر ماہ کم از کم دس افراد کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور کسی کو پتہ نہیں کہ یہ اموات کیوں واقع ہو رہی ہیں۔
اس ہیلتھ مرکز کے باہر کھڑا ایک 47 سالہ کلیانی ساماراسنگھے کہہ رہا ہے، ” محض آٹوپسی کے ذریعے کسی خاص شخص کی ہلاکت کی وجہ کا پتہ چلتا ہے۔” سامارا سنگھے کے بقول جب بھی کسی کے پیٹ یا کہیں اور درد ہوتا ہے تو وہ خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ کہیں یہ گردے کا درد تو نہیں؟
kidney disease
یہ بیماری سری لنکا کے دو قصبوں سے پھیلنا شروع ہوئی اور اب یہ شمال وسطی صوبے کے سات اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی ہے۔ اس علاقے میں 60 اور 70 کے عشرے میں جدید تکنیک متعارف ہونے کے بعد کاشتکاری کا عمل مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ملک کے کسی اور حصے میں گردے کی اس پبراسرار بیماری کا کیس سامنے نہیں آیا ہے تاہم اس بارے میں اب تک کی جانے والی تحقیق اس بیماری کی وجہ کا پتہ لگانے میں ناکام رہی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گندا پانی، پیسٹیسائیڈز یا کیڑے مار ادویات کا بہت زیادہ استعمال اور کھاد یا فرٹیلائزر اس موذی بیماری کی وجہ بن رہا ہے جب کہ یہ خیال بھی کیا جا رہا کہ غالباً غذا کی خرابی، بھاری دھات کا استعمال یا زہریلی کائی سے گردے کی یہ بیماری جنم لیتی ہے۔ متاثرہ گاؤں کے مکینوں کو جھیل کی مچھلی اور المونیم کے بنے ہوئے کھانا پکانے کے برتنوں کو ترک کرنے کی تاکید کی گئی ہے ساتھ ہی سب سے زیادہ زور گھر کی بنی ہوئی الکوحل کے استعمال سے پرہیز پر دیا جا رہا ہے تاہم کسی کو بھی اب تک اس پُراسرار بیماری کی حقیقی وجہ کا علم نہیں ہو سکا ہے۔