مضاربت و کاروباری مشارکت اسکینڈل

Jewellery

Jewellery

سیانے کہتے ہیں کہ جب تک دنیا میں لالچی اور بے وقوف موجود ہیں کوئی بھی ٹھگ بھوکا نہیں مر سکتا۔ زیورات اور رقم دگنی کرنے کا جھانسہ دینا صدیوں پرانا طریقہ ہے۔ عرصہ پہلے ہمارے پڑوسیوں کے گھر اسی طرح کے ٹھگوں کا ایک گروہ آیا۔ انہوں نے سب سے پہلے گھر والوں سے پانی کا ایک گلاس منگوایا اور ٹھگوں کے سردار نے جیسے ہی اپنی اْنگلی پانی میں ڈبوئی تو پانی سرخ ہو گیا۔ وہ کہنے لگا کہ تمہارے گھر پر کسی نے جادو کیا ہوا ہے۔ گھر میں اس وقت صرف ایک ہی مرد تھا۔

ٹھگوں نے گھر والوں سے ثابت سرخ مرچیں منگوائیں اور ان پر دَم کرنے کے بعد مرد سے کہا کہ وہ انہیں پاس والے نالے میں پھینک آئے۔ اس طرح مرد سے خلاصی کے بعد انہوں نے پہلے عورتوں کو سو روپے کا نوٹ ڈبل کرکے دکھایا اور پھر ان سے کہا کہ جو کچھ بھی قیمتی شے گھر میں ہے وہ لائیں اور وہ انہیں ڈبل کر دینگے۔ عورتوں نے گھر کی ساری جمع پونجی ان کو لاکر دے دی جس میں زیورات تک شامل تھے۔

ٹھگوں نے ساری نقدی اور زیور گھر والوں کے سامنے ایک چادر میں لپیٹے اور عورتوں سے کہا کہ اس چادر کو سات دن کے لیے سوٹ کیس میں رکھ دو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سات دن سے پہلے اس چادر کو کھولا گیا تو ساری جمع پونجی سے وہ ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ ٹھگوں کے جانے کے بعد جب مرد گھر آیا اور عورتوں نے اسے رقم ڈبل کرنے والی بات بتائی تو اسے شک گزرا۔ اس نے سوٹ گیس سے چادر نکال کر دیکھی تو اس میں پتھروں کے سوا کچھ نہ نکلا۔ پاکستان اس طرح کے فراڈوں کے لیے بڑی کارآمد جگہ ہے۔ یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنی سُستی اور لالچ کی وجہ سے ہر وقت یہی اُمید لگائے رکھتے ہیں کہ کوئی غیب سے آئے گا اور ان کو مالامال کر جائے گا۔ ہمارا معاشرہ جو صورت اختیار کر گیا ہے، اس میں کوئی کونہ کھدرا ایسا نہیں رہا جہاں ڈبل شاہ موجود نہ ہوں۔ کوئی بھی شعبہ زندگی ہو، خواہ وہ سیاست ہو یا معیشت، تعلیم ہو یا صحت، کھیل ہو یا ثقافت، دین ہو یا دنیا ہر جگہ ڈبل شاہ پائے جاتے ہیں۔

Double Shah

Double Shah

مشہور زمانہ فراڈیہ سید سبط الحسن شاہ المعروف ڈبل شاہ کو گرفتار ہوئے عرصہ ہو گیا ہے۔ اس نے محض اٹھارہ مہینوں میں فراڈ کے ذریعے رقم دگنی کرنے کا جھانسہ دے کر ستر ارب روپے کمائے۔ شروع میں یہ صرف پندرہ دنوں میں رقم دگنی کرکے واپس کرتا تھا مگر بعد میں یہ مدت بڑھتے بڑھتے ستر دنوں تک جا پہنچی اور پھر جلد ہی اس فراڈیئے کی ہیرا پھیری کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ڈبل شاہ کی گرفتاری کے بعد ہزاروں سادہ لوح متاثرین نے اس کے حق میں مظاہرے بھی کیے مگر احتساب عدالت نے اسے اقبالِ جرم کے بعد چودہ برس قید بامشقت کی سزا سنا دی اور تین ارب روپے جرمانہ عائد کرکے اس کی تمام جائیداد بھی ضبط کرنے کا حکم دے دیا۔ ڈبل شاہ آج بھی سلاخوں کے پیچھے ہے لیکن نہ تو ایسا ہوا کہ اس فراڈیئے کے انجام سے نئے فراڈیوں نے سبق سیکھا اور نہ ہی عوام نے ایسے لوگوں کو پہچاننے پر غور کرنے کی زحمت کی۔ حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والا مضاربت و کاروباری مشارکت اسکینڈل ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی اسکینڈل بن کر سامنے آیا ہے۔

اس اسکینڈل کے تمام کرداروں کے حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند سالوں کے دوران مجموعی طور پر پانچ سو ارب روپے کا فراڈ کیا گیا۔ بھاری شرح منافع کے نام پر اس سرمایہ کار اسکیم کو چلانے والے عناصر میں سے بعض علمائے کرام بھی شامل رہے۔ اس اسکیم نے ڈبل شاہ کی یاد تازہ کر دی مگر اُس کو گھوٹالے اور اِس میں فرق یہ ہے کہ اِسے شریعت کی منظوری کا لبادہ پہنا کر پیش کیا گیا۔ علمائے کرام اور آئمہ حضرات کا تعلق چونکہ براہ راست عوام سے ہوتا ہے اور عوام ان پر اعتماد کرتے ہیں لہٰذا سٹے بازوں نے اس تعلق کا خصوصی فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علماء کے ذریعے کھربوں روپے اکٹھے کیے۔ بظاہر سب سے زیادہ متاثرین بھی اسی طبقے سے ہیں مگر علماء کی ایک بڑی تعداد نے اس اسکیم میں ایجنٹ کا کردار بھی ادا کیا۔ ایک طرف تو مضاربت اسکینڈل میں ایک بہت بڑی رقم غریبوں کی جمع پونجی اور پینشنرز کے پیسے ہیں تو دوسری طرف ڈوبنے والے پیسوں میں بدعنوان سرکاری ملازمین کی وہ رقم بھی ہے جو انہوں نے ناجائز ذرائع سے حاصل کی ہے۔ اس اسکینڈل کے نمایاں کرداروں میں مفتی احسان الحق کے 280ارب روپے، زید شاہان صدیقی المعروف سیٹھ میمن ڈیفنس والا 125ارب روپے، شفیق الرحمٰن 80ارب روپے اور مفتی اْسامہ ضیاء کا 20ارب روپے سے زائد کے فراڈ میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح مختلف چھوٹے گروپ بھی ہیں، جن کا فراڈ کروڑوں میں بتایا جاتا ہے۔ میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق الیگزر، آصف جاوید ٹریڈنگ کمپنی، حبیب کارپوریشن، ایم ایم قریشی پرائیویٹ لمیٹڈ، پاک ویزا، انعقاد ایسوسی ایشن، شفیق کیبل مرچنٹ، گرین کارپوریشن، المسلم ٹریڈنگ کمپنی، الحاشر مضاربہ، البرکہ مضاربہ، مسیحا انٹرپرائز اور دیگر کمپنیوں کے نام پر عوام سے یہ رقم وصول کی گئی۔

Security Exchange

Security Exchange

ان میں سے کسی بھی ادارے یا کمپنی کو سکیورٹی ایکسچینج آف پاکستان کی جانب سے مضاربہ کی اجازت نہیں ہے۔ علمائے کرام اور آئمہ حضرات کے ذریعے فراڈ کرنے والوں نے ابتدائی طور پر لوگوں کو بروقت ادائیگیاں کیں، جس سے لوگوں کا اعتماد بڑھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول و عرض میں یہ وبا پھیل گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مئی 2013ء تک لوگوں کو نفع ہمیشہ بروقت ملتا رہا اور یہ نفع دس سے پینتیس فیصد کے درمیان ہوتا تھا تاہم اس میں سے ایک بڑا حصہ ایجنٹوں کے ہاتھ لگ جاتا اور اصل رقم کے مالک کو صرف دس سے پندرہ فیصد ہی ملتا۔ سادہ لوح عوام کو شاید یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ جن علمائے کرام اور آئمہ حضرات کے ذریعے اس کاروبار میں رقم لگا رہے ہیں وہ انہی فراڈیوں کے ایجنٹ ہیں اور اصل مالک کی رقم سے ہی باقاعدہ اپنا حصہ بھی وصول کر رہے ہیں۔ جید علماء نے ہمیشہ ان تمام امور کو مشکوک قرار دیتے ہوئے عوام سے اس کاروبار میں شرکت سے بچنے کی ہدایت کی۔ یہاں تک کہ مفتی تقی عثمانی صاحب بھی اپنی طرف سے منسوب اس فتوے کی تردید کر چکے ہیں کہ جس میں مضاربت کے نام پر فراڈ کرنے والی نجی کمپنیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ کاروبار اُن کی مشاورت سے شروع کیا گیا ہے۔

مگر عوام نفع کے لالچ میں جید علمائے دین کی ہدایات کو بھلا بیٹھے اور علمائے دین کے لبادے میں موجود فراڈیوں کے فریب میں آ کر اپنے کھربوں روپوں سے محروم ہو گئے۔ یہ عوام بھی کتنے بھولے اور معصوم ہیں۔ خواہ مخواہ ہر کسی کے جھانسے میں آ جاتے ہیں اور پھر لٹنے کے باوجود لٹیروں کے حق میں نعرے لگاتے، مظاہرے کرتے اور جان تک کی بازی لگا دیتے ہیں۔ ڈبل شاہ کے جھانسے میں گرفتار ہونے والے لوگوں کی اکثریتی رائے یہی تھی کہ اگر ڈبل شاہ کو گرفتار نہ کیا جاتا تو ان کے پیسے ڈبل ہو کر انہیں مل جاتے مگر مضاربت یا مشارکت اسکینڈل سے لُٹنے اور لوٹنے والوں میں اکثریت چہرے پر مہراب، ہاتھ میں تسبیح اور اللہ اللہ کا ذکر کرنے والوں کی ہے جو ابھی تک منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست سے لے کر روزگار تک، ہر معاملے میں لٹیرے اس کمالِ ہوشیاری سے لوٹتے ہیں کہ لٹنے والابھی خوشی سے جھوم اْٹھتا ہے اور بے اختیار واہ واہ، کمال کر دیا، خان صاحب زندہ باد، شاہ جی زندہ بادوغیرہ کے نغمے گاتا پھرتا ہے۔

ڈبل شاہ اسکینڈل ہو یا مضاربت و مشارکت اسکینڈل، اس سارے کھیل میں انسانوں میں دولت کی بڑھتی ہوس، لالچ اور راتوں رات کروڑ پتی بننے کی خواہش کو بنیاد بنایا گیا۔ جہاں پورا ملک ہی صرف اسی ایک کام پر مامور ہو کہ لوٹو اور کھسکو، وہاں کسی سے بھی کسی بھی بات کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ ہر کوئی راتوں رات اوپر اور اوپر جانا چاہتا ہے۔ خواہ اسی چکر میں سچ مچ ہی ”اوپر” پہنچ جائیں لیکن رِسک تو لینا ہی پڑتا ہے اور اسی رِسک رِسک کے چکر میں مضاربت کے نام پر شاطر ذہنیت رکھنے والے سٹہ باز ہی ہماری مشکلات میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔ یعنی آسان الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ حسبِ منشاء نتائج مہیا ہو جاتے ہیںاور ایسے ڈرامے ہم کچھ نا کچھ وقفوں کے بعد دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ انویسٹمنٹ کمپنیز کی طرح کے یہ پروگرام آتے رہتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں ہم لوگ اس کو سمجھتے نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے یا پھر جب آگ صرف اپنے گھر تک ہی پہنچتی ہے جبھی ہم اس کی تپش کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ فراڈ انتہائی بھیانک اور قابل افسوس ہے۔

خاص طور پر جب اس میں علماء ملوث ہیں مگر اس واقعہ کو کسی مخصوص مسلک کی تضحیک یا علماء کے پورے گروہ کی تضحیک یا مذمت کا سبب نہیں بنانا چاہئے البتہ شریعت کا لیبل لگا کر مضاربت و مشارکت کے نام پر فراڈ کرنے والوں کو ضرور بے نقاب کرنا ہوگا۔

Najeem Shah

Najeem Shah

تحریر: نجیم شاہ