تحریر: علی عمران شاہین شام میں جنگ بندی جاری ہے تو امریکی صدر اوبامہ نے یہ کہہ کر ” شام پر بشار الاسد کے خلاف بمباری نہ کرنے پر انہیں فخر ہے ،”اس بات کی قلعی ایک بار خوب کھول دی ہے کہ امریکہ مسلمانوں کے ساتھ صرف دھوکہ بازی کرتا اور انہیں دشمنی کے ساتھ دوستی کے روپ میں بھی قتل ہی کرتا ہے ۔کتنے ماہ وسال بیت چکے’ ساراعالم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ ارض شام خاک وخون میں غلطاں ہے۔ ایک ایسی سرزمین کہ جس کے باسی اپنے ہی حاکم کے ہاتھوں زخموں سے اس قدر چور اوردکھوں سے رنجور ہیں کہ تاریخ میں ایسی مثال شاید کم ہی ملے۔ یہاں کے حاکم وقت نے اپنی ہی رعایاکو مار مار کر لاکھوں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتاراتوملک کی آبادی کا بھاری اکثریتی حصہ ملک ہی چھوڑ چکاہے اور دنیا کے کتنے ملکوں میں دھکے کھاکر سمندروں میں غرق ہو رہے ہیں لیکن حکومت اور صرف حکومت کے نشے سے سرشاربشارالاسد صرف کھنڈرات اور لاشوں کے انبار وں پر بیٹھا صرف اس لیے شاداں و فرحاں ہے کہ وہ اب بھی ایک ملک کا سربراہ حکومت ہے ‘ اگر چہ کہ ملک مٹ چکاہے۔
سرزمین شام اس لحاظ سے بھی کس قدر بدقسمت ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں ایک آہ و فریاد پرلاکھوں کروڑوں دل پسیج جاتے ہیں ‘جسم تھرانے لگتے اور زبانیں چیخ و پکار شروع کردیتی توآنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں لیکن یہاں تو مُردوں کو دفنانے والا بھی کوئی نہیں ہے’ تو ان لاچاروں کانام لینے والابھی کوئی نہیں۔ لٹے پٹے اہل شام کو مارنے کے لیے دنیا بھر سے بشار کے ہم نوا یہاں جمع ہیں اور انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔آج ہی سوشل میڈیا پرایک تصویر دیکھی جس میں پاکستان کے شہر خوشاب کے رہنے والے ایک نوجوان محسن کو دکھایا جا رہا ہے کہ اس نے یہاں سے جاکر وہاں ”مقدس مشن” میں اپنی جان واردی ہے لیکن اس پر کوئی بات نہیں کرتا کہ پاکستان سے ان شہریوں کو وہاں کون اور کیوں لے جا رہا ہے؟اور کیا یہ دہشت گردی اور ریاست سے بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا؟
بشارالاسد’اس کے دنیا بھر کے عالمی اور علاقائی طاقتوں کے سرخیل اور حمایتی جو یہاں قیامت ڈھارہے ہیں’ اس کا ایک نظارہ دنیا نے جنوری 2016ء کے آغاز سے دیکھنا شروع کیااور بتانا شروع کیاکہ شام کے کتنے ہی ایسے علاقے ہیں جہاں لاکھوں شہری محاصرے میں ہیں اور بھوک و پیاس سے تڑپ تڑپ کر پہلے ہڈیوں کے پنجر بنتے ہیں اور ساتھ ہی پھر سسک سسک کر جانیں دے رہے ہیں۔ ماں باپ کے ہاتھوں میں معصوم بچے بلک بلک کر موت کی وادی میں اتر رہے ہیں۔ یہ محاصرہ کوئی آج شروع نہیں ہوا’ اسے تو 5 سال ہونے والے ہیں اور آج دنیا جس علاقے مضایہ کا نام سن رہی ہے’اس میں گھاس پھونس’ کتے بلیاں اور پتے کھا کر گزارہ کرتے ہوئے انسانوں کو 8 ماہ سے زائد کاعرصہ بیت چکا ہے۔ ان علاقوں کے محاصرے اور انسانوں کو یوں تڑپاتڑپا کر مارنے میں لبنان سے آئی حزب اللہ پیش پیش ہے جس کے اعلیٰ تربیت یافتہ جنگجوؤں کو عالمی طاقتوں کی بھی بھرپور سپورٹ حاصل ہے۔
Violence in Syria
اس صورتحال پہ توایک بھارتی معروف صحافی لکھنے پر مجبور ہوئے ”بشارالاسد اورحزب اللہ نے مل کر بے گناہ اور معصوم عوام کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے۔باہر سے اگرکوئی انسانی حقوق کی تنظیم امدادی اشیاء پہنچانا بھی چاہے تو اس کی اجازت نہیں بلکہ ظالم نصیری حکومت نے تو اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی اپیل کو بھی ٹھکرا دیاہے۔”مضایا” شہرکی موجودہ ہیبت ناک اور دل دوز تصویر نے اس شہرکے اس حسن و جمال کاجنازہ نکال کر رکھ دیا ہے جس کے حوالے سے مغربی دمشق کایہ شہر مشہور تھا اور جس کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔ ”مضایا” 2011ء سے پہلے نہایت ہی پرکشش ‘ قدرتی حسن وجمال اور فطری خزانوں سے مالامال شام کاایک مشہور شہر تھامگرآج یہ شہر فاقہ کشی ‘بیماری اور فقر و محتاجگی کی ضربوں تلے کراہ رہا ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ شہرانقلاب شام کی تحریک کے آغاز ہی سے وہاں اس کی ناجائز ظالم حکومت کے سامنے سینہ سپرہے جواپنے شہریوں کو زیر کرنے کے لیے انہیں بھوکا پیاسا رکھنے کو ہتھیار کے طورپر استعمال کررہی ہے۔ شامی حکومت اور اس کے معاون حزب اللہ نے شامی شہریوں کو بے موت مارنے کے لیے صرف میزائل ‘بمبار طیارے اور ہلاکت خیز بم وبارود ہی استعمال نہیں کیے بلکہ ان کے علاوہ بھی ہر گندا اور انسانیت کش حربہ وہ آزما رہے ہیں۔ چنانچہ اب انہوں نے شہریوں کو روٹی اور بچوں کو دودھ سے بھی محروم کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔
”مضایا” کے بچوں ‘بوڑھوں اور عورتوں کے پاس سوائے صبراور نصرت الٰہی کی امید کے اور کوئی ہتھیار نہیں جس سے وہ حزب اللہ او ر بشارالاسد کی چنگیزیت کامقابلہ کرسکیں۔دنیابھرکی حقوق انسانی کی تنظیمیں اور عالمی برادری کسی بھی ملک کو یہ اجازت نہیں دیتیں کہ وہ اپنے مدمقابل کوزیرکرنے کے لیے اس کی غذائی ناکہ بندی کردے اور اس کے حق زیست کو غصب کرنے کی کوشش کرے’مگرساری دنیابزعم خویش دیکھ رہی ہے کہ شام میں یہی کچھ ہورہاہے ۔لاکھوں لوگ مارے جاچکے ‘اتنے ہی جلا وطن ہوئے اور ملکوں ملکوں دربدر پھر رہے ہیںجبکہ ہزاروں لوگ بشار اورحزب اللہ کے ظلم و جور سے تڑپ رہے ہیں۔
لبنانی سرحدسے متصل شام کے سرحدی علاقوں میں پناہ گزینوں پرحزب اللہ کے مظالم ناقابل بیان ہیں۔ قصیرزہدانی اور حمص کے تمام شہری بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ مضایااورمعضمیہ کئی ماہ سے شامی افواج اور حزب اللہ کے محاصرے میں ہیں۔ان شہروں کے لوگوں کو کھانا اسی شرط پر مل سکتاہے کہ وہ ناجائز حکومت اوراس کے لوگوں کے سامنے گھٹنے ٹیکیں اور ساتھ ہی اپنی زمین جائیداد سے بھی دست بردار ہوجائیں۔شامی حکومت اورحزب ا للہ دونوں مل کر اسی طرح شام کے اصل شہریوں کو بے گھر کرکے اپنی نسلوں کو آباد کرناچاہتے ہیں جس طرح فلسطین میں اسرائیل نے وہاں کے اصل باشندوں کو ہجرت وپناہ گزینی پر مجبور کرکے ساری دنیاکے یہودیوں کو لالاکرآباد کرنے کا سلسلہ شروع کررکھاہے۔
Bashar Assad
دنیا کی منافقتیں دیکھیے کہ مظلوم اہل شام کو بشار الاسد کے جو روستم سے نجات دلانے کے لیے پیش پیش سعودی عرب نے اپنے ملک میں دہشت گردی بپا کرنے اورملک کی سلامتی کونقصان پہنچانے والے 47 شہریوں کوسزائے موت دی توامریکہ سمیت ساری دنیا میں بھونچال ساآگیا۔خصوصاً سعودی شہری باقرالنمر کی پھانسی پر توہرجگہ یہی شور وغوغابپاہوا ۔انسانی حقوق کی جبری عالمی چیمپئن ایمنسٹی انٹرنیشل کئی دھائیوں سے سعودی عرب میں مجرموں کو دی جانے والی اسلامی سزاؤں پرسب سے زیادہ کہرام بپاکیے ہوئے ہے اوراس نے سعودی عرب کو بدنام کرنے میں کوئی کسراٹھانہیں رکھی لیکن وہی ایمنسٹی’ اسرائیل اور بشار کی غنڈہ گردی پر زبان کو چپ کے تالے لگائے بیٹھی ہے۔افغانستان ‘عراق’صومالیہ اور دیگر مسلم خطوں میں جھوٹی قراردادوں اورمحض الزامات پر لاکھوں مسلمانوں کو بم وبارود سے مروانے والی اقوام متحدہ کو یہاں کسی ظلم کی کوئی پروا نہیں۔امریکہ کاسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ایک طرف سعودی عرب کو اپنااتحادی قراردیتاہے تودوسری طرف اس کے اندرونی فیصلوں پرشدید تحفظات کااظہار کرتااوردن رات سعودی عرب کو غیرمستحکم کرنے کے لیے رنگارنگ سازشیں رچاتااور گھیراتنگ کرتاہے۔
سارے عالم نے گزشتہ سال جنوری میں ایک عجیب منظر دیکھا تھا جب فرانس کے دارالحکومت پیرس میں گستاخ رسالے چارلی ایبڈو پرحملہ ہوااور گستاخ کارٹونسٹ قتل ہوئے تو دنیاکے37ممالک کے سربراہ پیرس میں جمع ہوکر ان 11ہلاک شدگان کے غم میں ہلکان ہوئے جا رہے تھے لیکن ان سب کوشام میں انسانیت کی بدترین حالت زار کی ذرہ بھر پروا نہیں۔ کوئی سوچے نہ سوچے’ بہرحال مسلم امہ کو تو سوچنا ہوگاکہ آخرکب تک وہ یوں ایک ایک کرکے مرتے رہیں گے اور”ہنوز دلی دوراست” کی تاریخ اورواقعات دہراتے رہیں گے ۔انہی مسلمانوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی منافقتیں دیکھئے کہ وہ کیسے مسلمانوں کو دھوکے دے رہے ہیں۔
12 جنوری کوخبرآئی کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل نے یہ اطلاعات ملنے کے بعد کہ شام کے محصور علاقوں میں لاکھوں عام شہری بھوک سے مررہے ہیں’اس پربحث شروع کردی ہے۔ اقوام متحدہ کو اب یاد آیاہے کہ مضایہ میں پھنسے ہوئے لوگوں کو مہینوں سے کوئی رسد نہیں پہنچی ہے۔بعد میںقوام متحدہ اورریڈکراس نے یوں تسلی دیتے ہوئے کہاکہ برسرپیکار فریقوں کے درمیان سمجھوتہ کے تحت غذائی اور طبی سازوسامان لانے والے ٹرک لبنانی سرحد کے نزدیک مضایہ پہنچ گئے ہیں اور سامان تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ حقیقتاً یہ سب کارروائیاں محض نمائشی ہی ہیں۔ عملاً ان مظلوموں کے لیے کچھ نہیں ہورہا۔ سعودی عسکری اتحاد ایسے ہی مظلوموں کی مدد کے لیے بنایاگیاہے’اب وہی کچھ کرے توکرے لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ سعودیہ کا مال کھانے والے بار بار غیرجانبداری کا درس دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان مظلوموں کی مدد کیا ظالم کریں گے۔ کیاظالم اورمظلوم کے مقابلے میں غیر جانبدار ہو کر مظلوموں کی مددکی جاسکتی ہے۔ آج یہ پوری امت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔