اسلام آباد (جیوڈیسک) حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے 15 ارکان پارلیمنٹ کاایک بلاک سامنے آسکتا ہے جو وزیراعظم نواز شریف کیلیے ایک نیاسیاسی چیلنج ہوگا جو بظاہر عمران خان اور طاہر القادری کی سربراہی میں احتجاج کے ابتدائی حملوں سے بچ نکلے ہیں۔
پارٹی کے ساتھ پہلا اختلاف رائے اس وقت سامنے آیا جب شریف بردران کے ایک اہم ساتھی سینیٹر ذوالفقار کھوسہ وزیر اعظم اور انکے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کیساتھ اپنے اختلافات کے حوالے سے کھل کر سامنے آئے۔ ذوالفقار کھوسہ اورانکے بیٹے دوست محمد کھوسہ اس وقت ناراض گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔
دوست کھوسہ نے جو 2009ء میں مختصرمدت کیلیے وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے ، کھل کر مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر تنقید کی۔ حکمران جماعت کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیاہے کہ کم ازکم 4 ارکان قومی اسمبلی بھی پارٹی کے اندربڑا پریشر گروپ بنانے کیلیے بھرپور سرگرم عمل ہیں۔
سابق وزیر مملکت امور خارجہ عبدالرحمن کانجو، سابق وزیر مملکت امورخارجہ صاحبزادہ نذیرسلطان، نجف علی اور رکن قومی اسمبلی رشیدخان اس گروپ کاحصہ ہیں۔ان ذرائع نے بتایا کہ اس گروپ کااجلاس 10نومبرکوپارلیمنٹ لاجزمیں ہوا۔
جس میں مستقبل کی حکمت عملی بنانے پرغور کیا گیا۔ ناراض ارکان میں سیدغوث علی شاہ بھی شریف برادران کیلیے پریشانی کاباعث ہیں جو مسلم لیگ (ن) سندھ کے سابق صدر اور صدارتی منصب کیلیے مضبوط امیدوارتھے۔ وہ پارٹی میں ناراض گروپ کاحصہ ہیں جووزیراعظم نوازشریف کے خلاف جماعت میں گروپ بنانے کی کوشش میں ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے اس ماہ کے شروع میں صورتحال کاادراک کرتے ہوئے صاحبزادہ نذیر سلطان سے ملاقات بھی کی اور انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ناراض گروپ کی حمایت نہ کریں تاہم وزیراعظم کی یقین دہانیوں اور وعدوں کے باوجود ملاقات کامیاب نہیں ہوسکی۔
اس صورتحال سے نمٹنے کیلیے وزیراعظم نواز شریف نے اب وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور پنجاب کے وزیر محنت وانسانی وسائل راجہ اشفاق سرور کو یہ ذمے داری سونپی ہے کہ وہ ناراض ارکان سے ملاقات کریں اور ان کی شکایات کے فوری ازالے کیلیے کوششیں شروع کریں۔
یہ یادرہے کہ مسلم لیگ(ن) کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے اور پارلیمانی سیاست میں اس طرح کا چھوٹا ناراض گروپ پریشانی کاباعث نہیں بن سکتا لیکن وزیراعظم نواز شریف سمجھتے ہیں کہ پارٹی معاملات میں کسی قسم کی کمزوری ان قوتوں کیلیے تقویت کاباعث بن سکتی ہے جوانہیں اقتدارسے ہٹانے کی کوشش کررہی ہیں اور یہ کمزوری عمران خان جیسے حزب اختلاف کے رہنماؤں کاحوصلہ بڑھائے گی۔