ن لیگی ایم پی اے کا سینئر ڈاکٹر پر تشدد

Doctor

Doctor

مظفر گڑھ (جیوڈیسک) پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن صوبائی اسمبلی حماد نواز ٹیپو اور ان کے ساتھیوں نے ای ڈی او آفس میں ایک سینئر ڈاکٹر کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا۔ ذرائع نے بتایا کہ ٹیپو ای ڈی او آفس آئے جہاں ڈاکٹر طارق جمشید زچہ و بچہ ہیلتھ پروگرام کے انچارج ہیں، اور انہیں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تشدد کا نشانہ بنایا۔

تشدد کے دوران ٹیپو نے پوچھا کہ ڈاکٹر طارق نے ان کے حلقے سے تعلق رکھنے والے ایک سیکورٹی گارڈ کو بھرتی کیوں نہیں کیا۔ ڈپارٹمنٹ نے سیکورٹی گارڈز کے لیے آسامیوں کا اعلان کیا تھا اور ایم پی اے نے ڈاکٹر جمشید کو ان آسامیوں کے لیے اپنے چھ ساتھیوں کے نام دیے تھے۔

ڈاکٹر طارق نے چھ میں سے پانچ افراد کو نامزد کرلیا تاہم انہوں نے ایک امیدوار تنویر کو مسترد کردیا جو ان کے مطابق میرٹ پر پورا نہیں اترتے تھے۔ ایم پی اے نے متعدد بار ڈاکٹر کو کال کرکے تنویر کو مقرر کرنے کی درحواست کی تاہم ڈاکٹر طارق نے انکار کردیا۔ اس بات پر ایم پی اے نے اپنے بھائی اور دیگر ساتھیوں سمیت ڈاکٹر کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ واقعے کو دیکھتے ہوئے دیگر اسٹاف ممبران موقع سے فرار ہوگئے۔

واقعے کے بعد ڈاکٹر کمیونٹی حرکت میں أئی اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کو اجلاس ڈاکٹر مہر اقبال کی صدارت میں ڈی ایچ کیو ہسپتال میں طلب کیا گیا جس میں ہڑتال پر جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پی ایم اے کے صدر ڈاکٹر مہر اقبال نے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درخواست پولیس کو دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہڑتال کے دوران صرف ایمرجنسی کیسز کو ہی طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر رائے ضمیر الحق نے کہا کہ تاحال ڈاکٹروں نے ایف آئی آر کے سلسلے میں رابطہ نہیں کیا۔ ڈی سی او حفیظ شوکت علی کا کہنا تھا کہ وہ معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیپو کے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے صحت خواجہ سلمان رفیق سے قریبی تعلقات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چند ماہ قبل ایم پی اے نے اسسٹنٹ کمشنر حسنین سجاد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور انہوں نے اپنا ٹرانسفر کسی اور مقام پر کروالیا۔

جب ایم پی اے حماد ٹیپو سے رابطہ کیا گیا تو انہں نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا اور کہا کہ ان کے پاس ایسی اطلاعات ہیں کہ ڈاکٹر طارق پیسے لیکر لوگوں کو بھرتی کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسی سلسلے میں چھان بین کے لیے ای ڈی او آفس گئے تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے معاملے پر انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔