پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں بجلی کی چوری اور اُوپر سے سینہ زوری ہے۔ چوری اور سینہ زوری بھی ایسی جیسا کہ اِن حضرات نے کی ایک شخص بنا ٹکٹ لیے ٹرین میں جا بیٹھا اور سفر کرنے لگا۔ چیکر نے آکر اُس شخص سے ٹکٹ شو کرنے کا اشارہ کیا تواُس نے کہا کونسی ٹکٹ اور کیسی ٹکٹ یہ ملک پاکستان ہمارا ہے۔ اِس کے گلی ، کوچے ، کھیت کھلیان ، ہوا ، پانی وغیرہ سب کچھ ہمارا ہے یہ ٹرینیں بھی ہماری ہیں۔
چیکر نے یہ سنا تو غصے سے لال پیلا ہو گیا اور اگلے اسٹیشن پر اُس شخص کو گریبان سے پکڑ کرریلوے پولیس کی حوالات میں بند کروا دیا اور بولا اب آپ یہاں آرام فرامائیں کیونکہ یہ جیلیں بھی تو تمہاری ہی ہیں یہ ایک بوسیدہ سا لطیفہ تھا صرف۔ بااثر اور موقع پرست لوگ سلیمانی چادر اُوڑھ کر ہر طرح اور ہر کونے سے پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اگر اِس چوری اور سینہ زوری پر تقریبا ً70% قابو بھی پا لیا جائے تو پاکستان کو لوڈ شیڈنگ کے بحران سے40% نکالا جاسکتا ہے۔
40% مختلف ذرائع جیسا کہ نواز شریف صاحب نے کوئلہ سے بجلی کی پیداوار کا ذکر کیاسے بجلی پیدا کر کے حاصل کی جاسکتی ہے اور باقی رہی 20% تو اتنا پاکستانی عوام برداشت کرنے کو تیار ہو ہی جائے گی۔ کم از کم 100% لوڈ شیڈنگ سے تو جان چھوٹے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان سے 100% لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی تو یہ اُوپر والے لطیفے سے بڑا اور زیادہ مزاحیہ لطیفہ ہو گا۔ میں ایک غریب ہوں اِس ہی لیے ہر ماہ باقائدگی سے آخری تاریخ سے قبل ہی بِل کی ادائیگی کر دیتا ہوں۔
کیونکہ میں جانتا ہوں کہ After Due Dateٹیکس کے ساتھ بھرنا پڑے گا اور اگلے ماہ بھی نہ بھرا تو واپڈا والے مجھے میٹر جیسی نعمت سے محروم کر دیں گے۔ میں روز گلی سے گزرتے وقت کئی اونچی بلڈنگوں کو حسرت سے دیکھتا ہوں جہاں اکثر رات کے پچھلے پہر دِن چڑھتا ہے ایسی عظیم الشان عمارتیں ان گنت ہیں جہاں پچھلے کمروں یا تہخانوں میں چوری چھپے چوری کی بجلی سے سینکڑوں کام لیے جاتے ہیں۔ اِس بات کی تصدیق پپو فراڈی نے میرے یہ پوچھنے پر کی کہ یار پپو فراڈی تیرے پاس یہ نئے کپڑے اور Honda 70 کہاں سے آگئی۔
Power
جبکہ 6 ماہ قبل تک تو ، تُو مجھ سے بیڑی کے لیے پیسے مانگا کرتا تھا تو پپو فراڈی نے بتایا اُس نے کِسی طرح بینک سے کچھ قرضہ لیکر گھر کے پچھلے کمرے میں 10 مشینیں لگائیں اور ہوزری کا چھوٹا سا کارخانہ بنایا جہاں رات ساری چوری کی بجلی استعمال کرنے اور دِن میں میٹر کمرشل نہ ہونے کی وجہ سے آج ہم صاحبِ استطاعت ہو گئے ہیں۔ پپو فراڈی نے یہ بھی بتایا کہ اُس نے زیرِ زمین بھی انوسمنٹ کی ہے وہ زیرِ زمین خفیہ طریقے سے دوسرے محلے میں اپنی منہ بولی خالا کے گھر بھی بجلی کی تار لیکر گیا ہوا ہے۔
اُس محلے اور ہمارے محلے کی لوڈ شیڈنگ کا شیڈول ہمارے حق میں ہے۔میں آپ کو پپو فراڈی کا پتہ بتائے دیتا ہوں آپ اِس بات کو راز میں رکھیے گا پپو فراڈی ایک ایسا کریکٹر ہے جو آپ کو ہر گلی ، ہر محلے ، ہر کارخانے بلکہ یوں کہیں کے ہر اُس جگہ سے باآسانی مِل جائے گا جہاں بجلی سے کام لیا جا رہا ہوگا بس دیکھنے والی تیسری آنکھ ہونی چاہیے جو اِس وقت حکومت کو کِسی بھی قیمت پر درکار ہے۔ خبر ہے کہ لوڈ شیڈنگ میں مساوات کا خیال رکھتے ہوئے بیک وقت پورا ملک اندھیرے میں دکھیلا جایا کرے گا۔
یو ں زیرِ زمین تاریں بچھا کر یا تھری فیس میٹروں کے ذریعے سہولت حاصل کرنے والوں کو تو بڑا دھچکا پہنچے گا۔ مگر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے کالم کے مطابق یونہی سہی کم از کم کچھ تو پوری قوم کو مساوی ملے گا کہی تو برابری کی بات ہوگی۔ ہم اپنے ملک پاکستان کو ہر لحاظ سے حسین ، خوبصورت اور جگمگاتا دیکھنا چاہتے ہیں بلاشبہ جو رنگینیاں مصنوعی لائٹیں پیدا کر سکتیں ہیں وہ سورج کی روشنی(Sun Light) میں کہاں دِن دھاڑے سٹریٹ لائٹس جلائے رکھنا روشنیوں کا شہر کہلوانے کے ساتھ ساتھ سٹریٹ کرائم پر نظر رکھنے کیلئے بھی کارآمد نسخہ ہے۔
Politics
یہ بجلی کا ضیاع نہیں آخر انسان اِس انگارے برساتی گرمی سے کیسے بچے ، بڑے بڑے عہدوں پر فائز اور صاحبِ استطاعت بچارے گوشت پوست کے معصوم انسان گھر سے نکلنے سے 2 کھنٹے قبل اگر اپنے آفس بوائے کو فون کر کے یہ نہ کہیں کہ آفس کا A.C فُل کر کے چلا دو تو اور کیا کریں۔ ہم پاکستانیوں سے بڑے عقل مند اور سیاستدان پوری دنیا میں نہیں پائے جاتے مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہم پاکستانی جادو گر بھی ہوتے ہیں۔ 20 سے 25 دِنوں تک مجال ہے جو ہمارا بجلی کا مٹرذرا سی حرکت بھی کر جائے اور مٹر چیکر کے محلے میں انٹر ہوتے۔
ہی نہ صرف اُس کی خشبو گھر اور دفتر کے ہر اک فرد کے گرد رقص کرنے لگتی ہے بلکہ بجلی کا میٹر بھی خود بہ خود ہی یوں حرکت میں آجا تا ہے جیسے صدیوں کا مسافر ہو۔ دودھ کی دوکانوں میں چار چار ڈی فریزر حالتِ سکون میں صرف دھلنے کی صورت میں ہی آتے ہیں۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ دِن رات چلنے کے با وجود ہر ماہ آنے والا بجلی کا بِل ٹشو پیپر سے بھی ہلکا ہوتا ہے۔ پرنٹنگ کا کام ہر شہر میں عروج پر ہے لاہور ، کراچی ، فیصل آباد ، ملتان ، پنڈی ، حیدر آباد اِس کے علاوہ دیگر ایسے کارخانے جو بجلی کے محتاج ہیں۔
کیا کبھی یہاں جا کر اِن کی وائرنگ چیک کی گئی ہے کوئی انکوائری بٹھائی گئی کراچی میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں بجلی صرف کنڈے کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ شادی بیاہ اور رنگین محفلوں پر بھی خوردبین کے ذریعے چور پکڑنے ہوں گے۔ احتساب ہونا چاہیے ضرورت مند بجلی سے محروم ہے۔
نمازی پسینے میں ڈوبا اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے کم از کم نازک لمحوں (وقت) کو تو مدِ نظر رکھا ہی جا سکتا ہے ، لائٹ کے ساتھ ہی نمازی وضو کے پانی سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ اور صاحبِ استطاعت وافر مقدار میں بجلی حاصل کر رہا ہے وہ بھی فری میں۔