اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلام آباد این اے 256 میں نادرا کی طرف سے 77 ہزار جعلی ووٹوں کی تصدیق کے بعد نئی بحث چھڑ گئی۔ حکومت نے ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈال دیا۔ پرویز رشید کہتے ہیں سیاہی ہی غلط تھی تو تصدیق کیسے ہو سکتی ہے۔ نادرا کی طرف سے 77 ہزار جعلی ووٹوں کی تصدیق کے بعد نیا پنڈورا بکس کھل گیا۔ پورے انتخابات پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا۔ بیلٹ پیپرز پر لگے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق ہوئی تو یہ راز کھلا کہ 6 پولنگ سٹیشنز میں ڈالے گئے 84448 ووٹوں میں سے 77000 سے زائد ووٹ جعلی ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کہتے ہیں این اے 256 میں غلط سیاہی کی وجہ سیووٹوں کی تصدیق ہی نہیں ہوئی۔ ادھر الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پریذائیڈنگ افسروں کو مقناطیسی سیاہی استعمال کرنے کا حکم دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر کے پولنگ سٹاف کو درست سیاہی فراہم کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے ہر حلقے میں دو طرح کی سیاہی فراہم کی۔ ایک انگوٹھا لگانے اور دوسری مہر لگانے کیلئے لیکن پریذائیڈنگ افسروں نے دونوں سیاہیوں سے ہی فنگر پرنٹس لے لئے۔
سپیشل مقناطیسی سیاہی سے لگائے جانیوالے انگوٹھوں کی نادرا سے شناخت ہوگئی جبکہ عام سیاہی سے لگائے جانیوالے انگوٹھوں کی تصدیق نہ ہوسکی۔ اگر الیکشن سٹاف کو درست سیاہی فراہم کی گئی تھی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پولنگ سٹاف کو تربیت دینا کس کی ذمہ داری تھی۔ کون سلجھائے گا اب اس گتھی کو۔ الیکشن کمیشن نے ٹریبونل کوفیصلہ سنانے کے لیے 25 اکتوبر تک کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ آنے کے بعد دیکھا جائے گا کس کی کوتاہی ہے۔ ٹریبونل کو کسی بھی حلقے میں دھاندلی کے ثبوت ملنے پر انتخابات کالعدم قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔