آج کل پورے ملک میں جنرل پرویز مشرف کے مقدمے کا شور مچا ہو ا ہے۔ہر شخص اس تجسس کا شکار ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو غداری کے مقدمے میں سزا ہو جائیگی یا پاک فوج اپنے ریٹائرڈ جرنیل کو باعزت بری کروا کر ملک سے باہر بھجوا دیگی؟آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یہ بیان داغ دینا کہ پاک فوج اپنے ادارے کے وقار کا ہر حال میں دفاع کریگی سب کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔
کچھ کے ہاں اس بیان کے بعد صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے جبکہ کچھ کے ہاں گھی کے چراغ جلائے جا رہے ہیں کیونکہ انھیں امید بند گئی ہے کہ ان کے اقتدار کے دن ایک بار پھر لوٹ کر آنے والے ہیں۔خواجہ سعد رفیق اور خواجہ محمد آصف کی کشمیری بڑھکیں اپنی جگہ انتہائی زوردار ہیں لیکن شیر کی دھا ڑ کے سامنے میمنے کی بڑھکیں کوئی وقعت نہیں رکھتیں۔٢٠٠٦ میں خواجہ آصف نے فلور آف دی ہائوس پر جسطرح کی تقریر کی تھی اس طرح کی تقریر تو اس نے بھارتی فوج کے خلاف بھی کبھی نہیں کی ہوگی چہ جائیکہ اس طرح کی تقریری اپنی فوج کے خلاف کر دی جائے۔
ایسے لگ رہا تھا کہ خواجہ آصف کسی غیرملکی فوج کو للکار رہے ہیں ۔ان کی تقریر انتہائی غیر مناسب، غیر سنجیدہ اور عامیانہ تھی ۔ کیا کوئی شخص اپنی فوج کے بارے میں ایسی زبان بھی استعمال کر سکتا ہے؟ آئینِ پاکستان فوج اور عدلیہ پر تنقید کی اجازت نہیں دیتا لیکن اس کے باوجود پارلیمنٹ کے اندر ہی آئین کی دھجیاں بکھیری جا رہی تھیں اور کوئی احتساب کرنے والا نہیں تھا۔اگر خو اجہ آصف اس طرح کی جذباتی تقریر کرنے سے پہلے اتنا سوچ لیتے کہ ان کی اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کا قائد جنرل ضیا الحق کا منہ بولا بیٹا تھا اور خواجہ آصف کا اپنا باپ (خواجہ صفدر) جنرل ضیاا لحق کی مجلسِ شوری کا چیرمین تھا تو شائد اس طرح کی تقریر کرنے کا اخلاقی جواز باقی نہ رہتا او نہ ہی ان کی تقریر اس قدر دھوں دار ہوتی۔
مجھے شک ہے کہ انھوں نے شائد یہ سوچا ہو گا کہ لوگ ماضی کو جلد بھول جاتے ہیں لہذا لوگ یہ بھی بھول گئے ہوں گئے کہ میرا سگا باپ(خواجہ صفدر) جنرل ضیا لحق کا حاشیہ بردار تھا۔خواجہ آصف کو بی سی سی آئی بینک میں نوکری بھی جنرل ضیا الحق کی نوازشوں سے ہی ملی تھی ۔اس وقت تو میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو والامنظر تھا لہذا سب کچھ قبول کر لیا گیا تھا۔ وقت بدلتاہے تو انسانوں کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔کل تک آمریت کے حاشیہ برادر اب جمہوریت کے علمبردار بن گئے ہیں تو پھر انھیں اتنا تو یاد رکھنا چائیے کہ جو جنرل ضیا لحق کے ساتھ کھڑے ہونے کی پاداش میں وہ بھی غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔ آئین شکنی میں ماضی یا حال کی کوئی تحصیص نہیںہو تی جنرل ضیا الحق کی قبر پر اس کے مشن کو جاری و ساری رکھنے کا عہد کرنے والے کیا غدا ری کے مجرم نہیں ہیں؟جس قانون کا اطلاق جنرل پرویز مشرف پر کرنے کی منصو بہ بندی کی جا رہی ہے اس سے تو ان کا خود اپنا بچنا بھی ممکن نہیں ہے ۔غداری کا مقدمہ اگر اتنا ہی ضروری ہے تو پھر سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا ضروری ہے تا کہ انصا ف کا بول بالا ہو سکے۔
Pak Army
مخالف کی گردن کو ناپنا اور اپنی گردن کو بچانا قائروں کا کام ہوتا ہے ۔کسی کو اس بارے میں رتی بھر بھی شک و شبہ نہیں ہونا چائیے کہ پاک فوج پاکستان کا سب سے مضبوط ادارہ ہے لہذا آخری فیصلہ آرمی چیف نے کرنا ہے کہ غداری کا مقدمہ کس انداز میں چلے گا اور کون کون اس میں ملوث سمجھا جائیگا ۔٩ اپریل کو کور کمانڈرز اجلاس میں جسطرح سے حکومتی اہلکاروں کی پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کا نوٹس لیا گیا ہے اس سے ان قیاس آرائیوں کو مزید تقو یت مل رہی ہے کہ فوج جنرل پرویز مشرف کی پشت پر کھڑی ہے۔ لوگ اس بات کو بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ پاک فوج کا سپہ سالار غدار بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس نے تو پاکستان کیلئے کئی جنگیں لڑی ہیں اور اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ایک سپہ سالار غدار ہے تو پھر اس کے زیرِ کمان جن لوگوں نے وطن کیلئے شہادتیں دی ہیں ان کی شہادتوں کی کیا حیثیت ہوگی؟ ہونا تو یہ چائیے تھا
جنرل پرویز مشرف پر آئین کی غداری کا مقدمہ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ سے شروع کیا جاتا اور اس میں تمام فوجیوں،ججز اور سیاسی جماعتوں کے ان قائدین کو بھی شامل کیا جاتا جھنوں نے اس شب خون کی حمائت کی تھی اورجھنوں نے اس شب خون کی فیو ض وبرکات سے اپنی جولیاں بھری تھیں۔مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت کا بیان ر یکا رڈ پر ہے کہ ١٢ اکتوبر١٩٩٩میں ہم بھی شاملِ کاروان تھے لہذا اگر مقدمہِ غداری چلنا ہے تو اس میں ہمیں بھی شامل کیا جائے لیکن مسلم لیگ (ن) نے چوہدری شجاعت کے بیان کو سنا ان سنا کر کے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کو مزید متشدد بنا دیا ہے۔ سارے ملک میں شور مچا ہوا ہے۔ فوجی قیادت اور سول قیادت ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہیں اور بے یقینی کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں لیکن کس لوگ انجان بنے بیٹھے ہیں ۔فوج کہتی ہے کہ ہم اپنے ادارے کا ہر حال میں تحفظ کریں گئے جبکہ مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کی بالا دستی کے نعرے سے فوج کو نیچا دکھانے کے جتن کر رہی ہے۔اس جنگ میں آخری جیت کس کی ہو گی یہ بھی سب کے علم میں ہے لیکن پھر بھی ذاتی انا کی تسکین کچھ لوگوں کو چین سے رہنے نہیں دے رہی۔فوج کو زیرِ پا رکھنے کی ایسی عامیانہ کوششیں پہلے بھی کی گئی تھیں اور ان اکا جو انجام ہوا تھا وہ بھی سب کے علم میں ہے لیکن انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ تاریخ سے پھر بھی کچھ نہیں سیکھتا۔سیاست دانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ فوج کو ہمیشہ دبائو میں رکھا جائے اور انھیں ایسے معاملات میں ملوث کرنے کی سازش کی جائے جس سے ان کی شہرت داغدار ہوتی ہو تاکہ ملکی خزانے کو لوٹنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔
اس ایجنڈے میں ساری سیاسی جماعتیں یک زبان رہی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی فوج کی قوت کے سامنے ٹھہرنا اور اپنی لیڈر شپ کو ان کے بوٹوں سے بچانا ا ن کے بس میں نہیں ہوتا کیونکہ ان کی اپنی جماعتیں مفاد پرستوں کا ٹولہ ہوتا ہے جو وقت پڑنے پر تتر بتر ہو جا تی ہیں۔پی پی پی ایک بڑی ہی نظریاتی اور منظم جماعت تھی لیکن وہ بھی جنرل ضیا الحق کی فوجی قوت کے سامنے بے بس ہو گئی تھی۔اس کے قائد کو ٤ اپریل ١٩٧٩ کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا اور یہ اپنے قائد کو بچانے میں ناکام رہی تھی کیونکہ اس کا مفاد پرست ٹو لہ اندر خا نے جنرل ضیا لحق سے ملا ہوا تھا۔۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کا اقدام مسلم لیگ (ن) کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے ہوا تھا اور اب بھی اگر کچھ ہوا تو وہ ان کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے ہی ہو گا۔١٢ اکتوبر کو اگر میاں محمد نواز شریف اپنے سسر الی رشتہ دار اور چہیتے جرنیل خواجہ ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف بنانے پر بضد نہ ہوتے تو پھر وہ سب کچھ نہ ہوتا جسے پوری قوم نے بھگتا ہے۔ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کا شب خون دوسرے جرنیلوں کی معاونت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا تھا لیکن قصور وار صرف جنرل شرف کو بنایا گیا ہے۔
اب اگر ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ جیسی فلم ایک بار پھر چلی تو وہ بھی دوسرے فوجی جرنیلوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہو گی۔کور کمانڈر کے اجلاس نے جنرل راحیل شریف کو مارشل لا کا اختیار دے دیا ہے اب یہ جنرل راحیل شریف پر منحصر ہے کہ وہ مارشل لاء کا اعلان کب کرتا ہے۔عدلیہ،میڈیا ،سول سوسائٹی اور دوسرے ادارے جمہوری رویوں سے نالاں ہیں ۔ وہ اس ملک میں ایک شفاف جمہوری نظام کے متمنی ہیں جسے کچھ سیاسی جماعتوں نے بالکل پراگندہ کر رکھا ہے۔پاکستانی عوام موجودہ جمہوریت کے قائل نہیں ہیں کیونکہ موجودہ جہو ریت نے انھیں لوٹ مار کے مناظر دکھانے کے علاوہ اور کچھ نہیں دکھایا۔فوج جب ایک دفعہ بیرکوں سے نکل آتی ہے تو پھر اسے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔وہ آتی ہے اور پھر جھاڑو پھیر کر ہی جاتی ہے۔صاحبِ تحت تختہ دار تک چلے جاتے ہیں اور جو جبر وستم کا شکارہوتے ہیں محترم اور مالکِ تحت بن جاتے ہیں ۔ہم نے یہ تماشہ کئی بار دیکھا ہے اور لگتا ہے ایک دفعہ پھر نیا تماشہ لگنے والا ہے جس میں سب کچھ الٹ ہو جائیگا ۔ میاں برادران نے جس جمہوریت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کیا تھا اسی سے کمال ہوشیاری سے اپنے مخالفین کو جھرلو اور پنکچروں سے ہرایا اور جب اقتدار کا سنگھاسن نصیب ہوگیا تو سارے اختیارات اپنے ہی گھر میں تقسیم کرلئے۔۔