تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ دبئی تَطَاولَ لَیْلِْ بِھَمَّ وَصَبٍ وَدَمْعٍ کَسَحِّ الْسِّقائِ الْسَّربٍ پے در پے رنج وغم اورتفکرات کے باعث میری راتیں طویل ہوتی جا رہی ہیں اور میرے آنسو اس طرح بہتے رہتے ہیں جیسے مشکیزے سے پانی بہہ رہا ہو شب وروز فکر اسلام اور حفاظت ِپیغمبر آخر ِزمان میں گزارنے والے سیدنا ابو طالب عبد مناف بن عبدالمطلب کا ایمان پرور کلام حمد ونعت سے لبریز ہے ۔صنادید ِعرب کے مقابلے میں آہنی چٹان بن جانے والے ابو طالب نے وقتا ًفوقتا ًاپنے جذبات واحساسات کو خوبصورت الفاظ عطاکرکے نہ صرف اوائل ِاسلام کی معتبرتاریخ مرتب کی ہے بلکہ عربی زبان و ادب پر بھی احسان ِ عظیم فرمایا ہے ۔آپ کی حیات ِطیبہ نصرت ِرسول اور سربلندیٔ اسلام کے لیے وقف تھی ۔ آپ کی سماجی قوت سے اسلام کوتقویت ملی۔آپ نے دین ِ مصطفٰیۖکے بڑے سے بڑے دشمن کو للکارنے سے بھی گریز نہ کیا۔یہی وصف آپ کے جلیل القدر صاحبزادوں اور پوتوں،پوتیوں میں نمایاں رہا۔جہاد بالسیف کے ساتھ ساتھ آپ کے خانوادے نے جہاد بالقلم اور جہاد باللسان بھی فرمایا ہے جس کی بنیاد دیوان ِابو طالب ہے ۔
روئے زمین پہ پہلا نعت گو لَقَدْ أکْرَمَ اللّٰہُ الْنَّبَِّ مُحَمَّداً، فَاکْرَمَ خَلْقِ اللّٰہ فِْ الْنَّاسِ أحْمَدٍ وَشَقَّ لَہُ مِنْ سْمِہ لِیُجَلَّہ فَذُوْ الْعَرْشِ مَحْمُوْد وَ ھٰذَا مُحَمَّدٍ یقینا خداوند ِعالم نے حضرت محمد کو منزلت وکرامت سے سرفراز فرمایا ہے کہ خداوند ِ عالم کی تمام مخلوقات میں سب سے بلند مرتبہ حضور ِاکرم کی ذاتِ گرامی قدر کاہے خدا نے اُن کے جلال وقدر کے لیے اُن کے نام کو بھی اپنے نام ہی سے مشتق کیا چنانچہ و ہ صاحب ِعرش محمود ہے اور یہ محمد ۖہیں انہی اشعار کی تضمین میں شاعر رسالت حسان بن ثابت کہتے ہیں ؛ اَلَمْ تَرَ أنَّ اللّٰہَ أرْسَلَ عَبْدُہُ، بِآیاتِہ وَاللّٰہُ اَعْلیٰ وَاَمْجَدْ وَشَقَّ لَہُ مِنْ سْمِہ لِیُجَلَّہ فَذُوْ الْعَرْشِ مَحْمُوْد وَ ھٰذَا مُحَمَّدْ
آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ اللہ جل ومجدنے اپنے خاص بندے کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا۔ خدا نے اُن کے جلال وقدر کے لیے اُن کے نام کو بھی اپنی صفات ِعالیہ سے مشتق کیا چنانچہ و ہ صاحب ِعرش محمود ہے اور یہ محمد ۖہیں عرب کے نامور شعراوناقدین برملامعترف تھے کہ ہم نے زندگی میں اس جیساخوبصور ت شعر نہیں سنا؛ وَشَقَّ لَہُ مِنْ سْمِہ لِیُجَلَّہ فَذُوْ الْعَرْشِ مَحْمُوْد وَ ھٰذَا مُحَمَّدْ
روئے زمین پر پہلے نعت گو کا اعزاز پانے والے سیدنا ابوطالب کا معرکة الآراایمان پرور نورانی کلام ِمقدس ”دیوان ِابوطالب ”میں جمع کیا گیا ہے جو سردار ِعرب کی طرح، تمام شعرائے عرب کے کلام کا سردار ہے۔کَلاَمُ المام مامُ الْکَلاَمْ ۔آپ کادیوان شعر وادب کا عظیم ترین شاہکار ہے ۔آپ شعرکہنے پر قدرت وقوت ِتامہ رکھتے تھے ۔فی البدیہ شعر کہنے میں آپ کو وہ ید طولیٰ حاصل تھا کہ عام گفتگو کرتے وقت پوری کی پوری بات اشعار ہی میں فرما دیا کرتے ۔آپ کے ہر شعر میں بے ساختگی اور سادگی پائی جاتی ہے ۔
Darbar e Hazrat Abu Talib a.s
آپ کے کلام ِبلاغت نظام کی عظمت وافادیت بَابُ الْعِلْمکے فرمان سے ظاہر ہے کہ آپ نے فرمایا،”اخلاق وادب کے ساتھ ذوق ِشعریت کی تسکین حاصل کرنا ہو تو دیوان ِابو طالب کا مطالعہ کریں”۔چھٹے خلیفہ ٔ راشدسیدنا امام جعفر الصادق فرماتے ہیں،” امیر المومنین علی ابن ِابی طالب ،سیدنا ابو طالب کے اشعار کوبہت زیادہ محبوب رکھتے تھے ۔آپ ان اشعار کے جمع کرنے کی خواہش رکھتے تھے کہ پڑھے جائیں اور مشتہر ہوں ۔آپ اکثر حکم دیتے کہ یہ اشعار خود پڑھو اور اپنے بچوں کو پڑھائو اس لیے کہ حضرت ابو طالب دین ِخدا پر تھے اور ان اشعار میں بڑا علم ہے ”۔امام چاہتے تھے کہ یہ اشعار نقل کیے جائیں ۔ان کی تعلیم دی جائے اور انہیں حفظ کیا جائے تا کہ ان سے رسالت کا عرفان حاصل ہو اور مذہبی معلومات میں اضافہ ہو۔ ” کَانَ أمِیْرَالْمُؤمِنِیْنَ یُعْجَبْہُ اَنْ یُّرْویٰ شِعْرُ اَبِْ طَالِبٍ وَاَنْ یُّدَوِّنْ وَقَالَ: تَعَلَّمُوْہُ وَعَلِّمُوْہُ اَوْلاَدَکُمْ فَنَّہُ کَانَ عَلیٰ دِیْنِ اللّٰہِ وَفِیْہ عِلْم کَثِیْر”
سیدنا ابوطالب کے بحر ِمعارف کا گنج ِگرانمایہ کتب سیر وتواریخ وادب سے جناب ابوھفان مھزمی نے شرح وتعلیقات کے ساتھ ترتیب دیا۔عربی ادب میں نمایاں مقام کے حامل أبُوْ ھَفّانْ عَبْدُاللّٰہْ بِنْ أحْمَدْ بِنْ حَرْبْ بِنْ مِھْزَمْ بِنْ خالِدْ بِنْ فَزَرْ ألْعَبْدِْ (وصال ٢٥٧ھ )بصرة متولد اور بغداد مقیم تھے ۔کَانَ لَہُ مَحَلُّ کَبِیْر فِْ الْأدَبْ ،تاریخ ِ بغدادجلد٩ صفحہ ٣٧٠مرقومہ ٤٩٤٥ازخطیب ِبغدادی۔آپ کے گرانقدر علمی کارناموں میں شِعْرُ أبِْ طَالِبْ بِنْ عَبْدُالمُطَّلِبْ وَأخْبَارِہ ، طَبْقاتُ الْشُّعَرَاء ، أشْعار عَبْدُالْقَیْس وأخْبارِھ اتاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔علامہ مجلسی نے آپ کاذکر ألْوَجِیْزَةْ مِنَ الْمَمْدُوْحِین میں کیا ہے جہا ں سے محقق بحرانی نے بَلِّغَةُ الْرَّجالْ ، علامہ مامقانی نے تَنْقِیْحُ الْمَقالْ اوریاقوت حموی نے مُعَجِّمُ الْأُدَباء میں بیشتر مقامات پہ آپ کا ذکر کیا ہے ۔یَتِیْمَةُ الْدَّھَرْ ج١صفحہ ٧٧ پہ ابومنصور عبدالملک بن محمد بن اسماعیلثَعَالَبِْ نیشاپوری (٩٦١تا١٠٣٨ئ) کہتے ہیں، ھُوَ الْقُطَبْ فِْ لِسَانِ الْعَرَبْ لَیْہ ْ نْتَھَتُ الْرِّیاسَةَ فِْ الْأدَبْ۔
نعت ِمصطفٰی بذبان ِسید ِبطحا تین ہزار سے متجاوزنعتیہ اشعار میں سیدناابوطالب نے علی الاعلان نصرتِ پیغمبر اعظم اور ببانگ ِدہل کفر کے سورمائوں کوللکارا ہے جن میں رسول اللہ کاکامل عرفان ِ،باری تعالیٰ ومرسلین ،کتب وصحف ِانبیا اور ملائک پہ غیرمتزلزل ایقان کے بے کراں سمندر موجزن ہیں۔فرماتے ہیں؛ مُحَمَّدتَفْدِنَفْسَکَ کُلُّ نَفْسٍ ذَا مَا خِفْتَ مِنْ شَیٍٔ تِبَالاً اے محمد !میرے نورِنظر ،اگر کسی خطرے یا مصیبت وپریشانی کا اندیشہ ہو تو ہر شخص کو اپنی جان آپ کے قدموں پر نثار کر دینی چاہیے مَلِیْکُ الْنَّاسِ لَیسَ لَہُ شَریْکْ، ھُوَ الْوَھَّابُ وَالْمُبْدُِ الْمُعِیْد وَمَنْ تَحْتَ الْسَّمائِ لَہُ بحَقٍ، وَمَنْ فَوْقَ الْسَّمائِ لَہُ عَبِیْد
Deewan e Abi Talib a.s
پروردگار ِعالم ہی تمام انسانوں کا فرمانروا ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی نعمتیں عطا کرنے والا ،دنیا کو ایجاد کرنے والااور دوبارہ زندگی عطا کرنے والا ہے آسمان وزمین کے درمیان جو مخالیق بھی متنفس ہیں اور جو آسمانوں پر ہیں وہ بھی اُسی کے حقیقی بندے ہیں۔
سیدناابوطالب کی نور ِرسالت پہ فداکاری کے عزم کا آغازسید ِعرب حضرت عبدالمطلب کی منت سے ہوتا ہے جب آپ نے سنت ِابراہیم کے مطابق اپنے عزیزازجان لخت ِ جگرمصباح ِحرم سیدنا عبداللہ کو بصورت ِاسماعیل راہ ِخدا میں قربان کرنا چاہا جس کی جانب اشارہ کرتے سرکارِدوعالم نے فرمایا أنابْنُ ذَبِِیْحَیْن ،میں دو ذبیحوں سیدنا اسماعیل وسیدنا عبداللہ کانور ِنظر ہوں ۔سید ِعرب کے عزم کودیکھتے ہوئے سید ِبطحا عرض گذار ہوئے ؛ کَلاَّ وَ رَبِّ الْبَیْتِ ذِْ الْأنْصَابِ، مَا ذِبْحُ عَبْدِاللّٰہ بِالْتَّلْعَابِ یَا شَیْبُ نَّ الْرِّیْحَ ذُوْ عِقَابِ، نَّ لَنَا جِرَّةً فِْ الْخِطَابِ أخْوَالَ صِدْقٍ کَلُیُوْثِ الْغَابِ
رب ِکعبہ کی قسم !عبداللہ کا ذبح کیاجانامعمولی بات نہیں جناب شیبَةُالْحَمْد! اگر ایساہواتو سیاہ آندھیاں چلنے لگیں گی اور قوم کے اندر بحران کی کیفیت پیدا ہوجائے گی اور ہمارے ننھیالی رشتہ دار بنی مخزوم کے تمام لوگوں پر رنج وغم کا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا ۔لہٰذاغور فرمایے کہ متبادل صورت کیا ہوسکتی ہے ۔ کَانَ أبوْطَالِبْ اِذَا رَآی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ أحْیَاناً یَبْکِْ وَیَقُوْلْ: ذَا رَأیْتُہُ ذَکَرْتُ أخِْ، وَکَانَ عَبْدُاللّٰہ أخَاہُ لاَِبَوَیْہِ وَکَانَ شَدِیْدُ الْحُبِّ وَالْحَنُوِّ عَلَیْہ، وَکَذٰلِکَ کَانَ عَبْدُالْمُطَّلِبْ شَدِیْدَ الْحُبِّ لَہُ، وَکَانَ أبوْطَالِبْ کَثِیْراً مَّا یَخَافَ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ الْبَیَاتْ ذَا عَرَفَ مَضْجَعَہُ فَکَانَ یُقِیْمُہُ لَیْلاً مِّنْ مَّنَامِہ وَیَضْجِعْ بْنُہُ عَلِیًّا مَکَانُہْ ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوگاہے گاہے دیکھاکرتے اورگریہ زاری کرتے فرماتے کہ جب میںآپ کو دیکھتاہوں تو مجھے میرابھائی یاد آجاتا ہے اورعبداللہ آپ کے بھائی تھے جن سے آپ بے پناہ محبت اور شفقت ِ پدری رکھتے تھے اسی طرح عبدالمطلب بھی ان سے بے پناہ محبت فرماتے۔ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بے حد متفکر رہتے تھے ۔جب بھی آپ کی جائے استراحت کا پتہ چلتا تورات کو انہیں نیند سے بیدار کردیتے اور ان کی جگہ اپنے فرزند علی کوسلادیتے۔
یَاشَاھِدَالْخَلْقِ عَلَیَّ فَاشْھَدِ أنِّْ عَلیٰ دِیْنِ الْنَّبِیِّ اَحْمَدِ مَنْ ضَلَّ فِْ الْدِّیْنِ فَنِّ مُھْتَد اے لوگوں کے سامنے میری گواہی دینے والے !میری گواہی دے کہ میں نبی اللہ احمد ِمجتبیٰ کے دین پر ہوں،کوئی دین میں گمراہ ہے تورہے لیکن میں یقینارہرو ِہدایت ہوں مَلِیْکُ الْنَّاسِ لَیسَ لَہُ شَریْکُ ھُوَالْوھَّابُ وَالْمُبْدُِٔ الْمُعِیْدُ وَمَنْ تَحْتَ الْسَّمائِ لَہُ بحَقٍ وَمَنْ فَوْقَ الْسَّمائِ لَہُ عَبِیْدُ
پروردگار ِعالم ہی تمام انسانوں کا فرمانروا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ۔وہی نعمتیں عطا کرنے والا ،دنیا کو ایجاد کرنے والااور دوبارہ زندگی عطا کرنے والا ہے آسمان وزمین کے درمیان جو مخلوقات بھی زندگی گزار رہی ہیں اور جو آسمانوں پر ہیں وہ بھی اُسی کے حقیقی بندے ہیں حضور پرنور کی زیارت کرتے فرمایا کرتے؛ أنْتَ الْأ مِیْنُ ، أمِیْنُ اللّٰہ لاَ کَذِبْ وَالْصَّادِقَ الْقَوْلِ لاَ لَھْو وَّ لاَ لَعِبْ اَنتَ الرّسُوْلُ، رَسُوْلُ اللہ نَعْلَمُہُ عَلَیْکَ َنزَلَ مِنْ ذِالْعِزَّةِالْکِتٰبْ
Deewan e Abi Talib a.s
لاریب آپ امین ہیں،امانت دار ِخداوند ِتعالیٰ ہیں اور بات کے سچے ہیں کبھی آپ کو غیر ضروری وبے معنی گفتگو کرتے نہیں پایا ہم جانتے ہیںآپۖاللہ کے برحق رسول ہیںجنہیںخداوند ِعالم نے مبعوث بہ رسالت فرمایاہے اور اس صاحب ِعزت وجلال رب کی جانب سے آپۖپر کتاب نازل ہوئی ہے۔ پھرفرماتے ؛ ألَمْ تَعْلَمُوْا أنّا وَجَدْنَا مُحَمّداً نَبِیّاً کَمُوْسٰی خُطَّ فِْ اَوَّلِ الْکُتُبْ کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے محمد کوویسا ہی نبی پایا جیسے کہ موسیٰ تھے اور یہ بات سب سے پہلے نوشتہ میں لکھی ہوئی ہے ۔ ٰ سرکار ِدوعالم ۖسے مخاطب ہو کر فرمایا کرتے ؛ اَنْتَ الأ مِیْنُ مُحَمَّدٍ، قَرْم أعَزُّمُسَوَّدْ لِمُسَوّدِیْنَ أطَائِبٍ،کَرَمُوْاوطَابَ الْمُوْلَدْ
آپ امین ہیں ،محمد ہیں ،سب سے زیادہ عزت دار سردار ہیں ۔آپ کریم الاصل ،پاک دامن سرداروں کے فرزند ہیں ،آپ کی جائے ولادت بہت اچھی ہے أنْتَ الْسَّعِیْدُ مِنَ الْسُّعُوْدِ، یُکَنِّفَنْکَ الْأسْعَدْ مِنْ بَعْدِآدَمَ لَمْ یَزَلْ، فِیْنَا وَصِیّمُّرْشَدْ آپ نیک بختوں کے سعید فرزند ہیں اور سعادت مند ہی آپ پر سایہ کیے ہیں ۔آدم کے بعد سے لے کر اب تک ہمارے خاندان میں کوئی نہ کوئی ہدایت کرنے والا وصی برابرچلاآتا ہے فَلَقَدْعَرَفْتُکَ صَادِقاً، بالْقَوْلِ لاَتَتَفَنَّدْ مَازلْتَ تَنْطِقُ بالْصَّوَابِ، وَأنْتَ طِفْلاَمْرَدْ
میں آپ کو خوب پہچانتا ہوں کہ آپ کی ہر بات سچی ہے ،خلاف ِعقل نہیں اور آپ تو اس وقت سے جبکہ آپ کم سن تھے حق ہی حق بات کہتے رہے بَکَِ طَرِباً لَمَّا رَآنِْ مُحَمَّدْ،کَأنَّ لاَ یَرَانِْ رَاجِعاً لِمَعَادٍ فَبَتَّ یُجَافِیْنِْ تَھَلَّلَ دَمْعِہْ، وَعِبْرَتِہ عَنْ مِضْجَعِْ وَ وَسَادِْ جب میں محمد کو دیکھتا ہوں تو تڑپ تڑپ کر روتا ہوں کہ اب واپس آکر آپ کی زیارت سے شرفیاب ہونا ممکن نہیں ، تمام تر ہمت وجوانمردی کے باوجود غم واندوہ کی چادر مجھے اوڑھ کرمیرے سوگ اور حسرت ویاس کے آنسوئوں سے بھیگ جاتی ہے ۔ لاَ یُؤمِنُ أحَدُکُمْ حَتیّٰ أکُوْنَ أحَبَّ الَیْہ مِنْ وَالِدِہ وَ وَلَدِہ وَالْنَّاسِ أجْمَعِینَ ، حدیث ِنبوی نَّ بْنُ آمَنَةَ الْنَّبِیُّ مُحَمَّداً عِنْدِْ یُفَوِّقُ مَنَازِلَ الْاَوْلاَدِ یقیناً فرزند ِآمنہ محمد نبی اللہ ! میرے نزدیک میری اولاد سے بڑھ کرہیں۔