اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) عدالت نے حکم دیا ہے کہ نیب ملزمان کو حراساں اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کرے، وائٹ کالر کرائم میں تو دستاویزی شواہد دینا ہوتے ہیں، ہر ریفرنس میں 90 ،90 روز کا ریمانڈ تو ظلم ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ملزمان کے خلاف ایک سے زائد ریفرنسز دائر کرنے سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ نیب ملزمان کو حراساں اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کرے، وائٹ کالر کرائم میں تو دستاویزی شواہد دینا ہوتے ہیں، ہر ریفرنس میں 90 ،90 روز کا ریمانڈ تو ظلم ہے، نیب کو قانون کے ماتحت رہ کر ہی فرائضِ سرانجام دینا ہیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے ریمارکس دیئے کہ فوجداری مقدمات میں 40 روز سے زیادہ ریمانڈ نہیں مل سکتا، نیب کو ملزم کے 90 روز کے ریمانڈ کا اختیار تحقیقات مکمل کرنے کیلئے ہی دیا گیا ہے، کیا تحقیقات کیلئے نیب افسر تربیت یافتہ نہیں؟، نیب تحقیقات مکمل کرکے ایک ہی ریفرنس کیوں داخل نہیں کرتا ؟ نیب کے لا افسران نے ایشوز پر ڈیپارٹمینٹ میں بات کیوں نہیں کرتے۔
نیب کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ ملزمان کو گرفتار نہ کیا جائے تو وہ تعاون نہیں کرتے، لندن میں ایک اہم سیاسی شخصیت کے خلاف دو تین سال سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات جاری ہیں، ٹرائل کورٹ کے پاس ریفرسز کو یکجا کرنے کا اختیار ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نے استفسار کیا کہ نیب کے پاس ضمنی ریفرنس دائر کرنے کا اختیار کس قانون میں ہے؟۔ نیب وکیل نے جواب دیا کہ ضمنی ریفرنس سی آ ر پی سی کے ضمنی چالان کے قانون کے تحت کئیے جاتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب کو اپنے اختیارات کو غیر جانبداری سے استعمال کرنا ہے۔ وکیل نیب نے مؤقف دیا کہ ہائی کورٹس نے تو نیب کے ایک ملزم کے خلاف زیادہ ریفرنسز دائر کرنے سے ہی روک دیا ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ سارے فریقین معاملے پر تحریری معروضات جمع کروائیں، عدالت نے آئندہ سماعت پر معاونت کیلئے پراسیکیوٹر جنرل نیب کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ کیس کی مزید سماعت جنوری میں ہوگی۔