اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی حکومت نے کیپسٹی چارجز کی مد میں 1 ارب روپے کی خطیر رقم ایل این جی درآمد کرنے والی کمپنی کو فراہم کر دی۔
وزارت پٹرولیم کی دستاویزات کے مطابق پاکستان کو اس وقت قدرتی گیس کی قلت کا سامنا ہے جن میں بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ اور گیس استعمال کرنے والے دیگر تمام سیکٹر شامل ہیں، ڈومیسٹک گیس کی پروڈکشن 4 ہزار ایم ایم سی ایف ڈی ہے جوملکی ضروریات کو پورا نہیں کر رہی، طلب و رسد میں فرق 2 ہزار ایم ایم سی ایف ڈی ہے۔
گیس کی طلب میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، گیس کی کمی سے نہ صرف عام شہریوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ملکی اقتصادی ترقی پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، حکومت گیس کی قلت کم سے کم کرنے کے لیے ایل این جی درآمد کر رہی ہے، اس سلسلے میں بولی کے عمل کا موازنہ کیا گیا، ای سی سی اور کابینہ سے منظوری بھی لی گئی۔
سوئی سدرن گیس کمپنی اور اینگرو ٹرمینل لمیٹڈ کے درمیان اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے 30 اپریل 2014 کو ایل این جی سروسز معاہدہ (ایل ایس اے) اور ری گیسی فکیشن سروسز کی مد میں لیوی لائزڈ ٹولنگ فیس 0.66 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو طے پایا، معاہدے کے تحت سوئی سدرن گیس کمپنی ٹرمینل کو استعمال نہ کرنے پر کیپسٹی چارجز کی مد میں 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر یومیہ ادا کرے گی۔ وفاقی وزارت پٹرولیم کے مطابق معاہدے کے تحت 20 فیصد استعمال نہیں ہو سکا ہے۔
اس طرح اب تک 1 ارب روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں ادائیگی کی گئی۔ ذرائع کے مطابق کیپسٹی چارجز کی پیمنٹ ریگولر بنیادوں پر دی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس معاہدے کی نیب نے بھی انکوائری شروع کر دی ہے، نیب حکام نے معاہدے کی دستاویزات حاصل کرکے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔