پاکستان دنیا کا خوبصورت اور زرخیز خطہ ہے یہاں کے لوگ محنتی اور جفا کش ہیں روکھی سوکھی کھا کر پیٹ پر پتھر باندھ کر گذارا کرنے والے لوگ ہیں خوف خدا اور جذبہ خدمت خلق سے سرشار ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے لیڈروں نے اپنی قوم کے ساتھ ملک کر جہالت،غربت، بے روزگاری اور کرپشن کے خلاف کام کیا دن بدن ترقی کے زینے طے کیے اور آج ہم ان ممالک میں ویزہ لگوانے کو ترس رہے ہیں اپنی اور گھر والوں کی جمع پونجی رزق دینے والی چیزیں گائے، بھینسیں اور زمینیں فروخت کرکے لاکھوں روپے ایجنٹوں کو دیکر یورپ بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ایسا کیوں کرتے ہیں کیونکہ یہاں پر ہمارے حکمرانوں نے ہمیں لوٹ لوٹ کر کنگال کردیا ان لٹیروں میں سیاستدان،بیوروکریٹ اور نہ جانے کون کون پردہ نشین شامل رہے ہمیں جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا گیا غربت ہمارا مقدر بنا دی گئی اور تو اور انپڑھ پیسے کے زور پر ہمارے حکمران بن بیٹھے جنہوں نے خود بھی لوٹا اور اپنے حواریوں کو بھی کھلی چھٹی دے رکھی تھی ان لٹیروں کا دنیا بھر میں پھیلا ہوا کاروبار اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ پاکستان کو ڈبونے والے یہی افراد ہیں جنہوں نے کمال ہوشیاری سے ڈاکے ڈالے اور اپنے کھرے بھی نہیں چھوڑے اسکے باوجود اللہ کا شکر ہے کہ ان حالات میں بھی ہمارے چند ایک ادارے اچھا کام کررہے ہیں انہی میں ایک ادارہ نیب بھی ہے جو بلا شبہ اچھا کام کر رہا ہے۔
بے شک وہ ملزمان کو سزا دلوانے میں کامیاب نہیں ہوتے مگر اس کے باوجود انہوں نے بڑے بڑے کلغی والوں کی دم پر پاؤں ضرور رکھا ہوا ہے جن کی چیخیں سننے کو ملتی رہتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ پیسے کے زور پر یا اپنی چالاکی سے بچ نکلتے ہیں ورنہ بودی سائیکلوں والے کے بیٹے اسحاق ڈار کے پاس اربوں روپے کہاں سے آئے غربت کی لکیر پر زندگی گذارنے والے خواجہ سعد رفیق کے پاس اربوں روپے کہاں سے آئے ڈاکٹر عاصم نے کتنی لوٹ مار کی یہ لوگ اور اس طرح کے سینکڑوں لوگ تو صرف فرنٹ میں تھے اور اربوں روپے کما لیے جو انکے آقا ہیں انہوں نے کتنا لوٹا ہوگا اس صرف تخمینہ لگا جاسکتا ہے انہیں پکڑا نہیں سکتا ان حالات میں ہماری نیب اچھا کام کررہی ہے جو انکی مخالفت کرتے ہیں وہ پاکستان میں چوری کے نظام ہے حامی ہیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان اور عالمی اقتصادی فورم نے نیب کی انسداد بدعنوانی کی کوششوں کو سراہا ہے یہ رپورٹ 30جولائی کورپورٹ جاری ہوئی تھی جس کے مطابق چیئرمین نیب جٹس جاوید اقبال کی قیادت میں نیب کی کارکردگی گزشتہ عرصہ کے مقابلہ میں زیادہ بہترین رہی ہے۔
نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بدعنوان عناصر سے 466ارب روپے کی ریکوری کی ہے جو نمایاں کامیابی ہے نیب2000 سے اب تک بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے اپنی کوششیں کررہا ہے۔ نیب نے اس تناظر میں کئی ورکشاپس، ٹریننگز، سیمینارز اور بالخصوص بزنس کمیونٹی اور بیورو کریٹس کے ساتھ روابط، این اے سی ایس اور یو این سی اے سی کو معاونت فراہم کی ہے نیب میں ٹھوس دستاویزی ثبوت پر مبنی انکوائریوں اور انویسٹیگیشن میں مزید بہتری کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا نظام وضع کیا گیا ہے۔اجتماعی دانش سے فائدہ اٹھانے کے لئے متعلقہ ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر کی نگرانی میں سینئر انویسٹیگیشن آفیسر،جونئیر انویسٹیگیشن آ فیسر، ایڈیشنل ڈائریکٹر انویسٹیگیشن بطور کیس آ فیسر،لیگل کونسل،مالیات اور لینڈ ریونیو کے ماہرین تحقیقاتی ٹیم میں شامل ہیں۔ نیب نے اپنی ٹریننگ اینڈ ریسرچ اکیڈمی قائم کی ہے جس میں نیب کے انویسٹیگیشن آ فیسر اور پراسیکیوٹر کو منی لانڈرنگ اور وائٹ کالر کرائمز سے نمٹنے کے لئے جدید خطوط پر تربیت دی جاتی ہے۔
انویسٹی گیشن کو قانون کے مطابق معیاری بنانے کے لئے نیب ہیڈکوارٹرز میں اینٹی منی لانڈرنگ سیل اور تمام علاقائی دفاتر میں وٹنس ہینڈلنگ سیل قائم کئے گئے ہیں نیب کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لینے کے لئے کمپیوٹر پر مبنی جدید مانیٹرنگ اینڈ ایوالیوایشن کا نظام وضع کیا گیا ہے جبکہ چئیرمین کی مانیٹرنگ اینڈ ایوالیوایشن ٹیم کے ذریعے عملی طور پر مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا جا تا ہے۔بزنس کمیونٹی کی شکایات کے ازالے کے لئے چئیرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال کی ہدایت پر نیب ہیڈکوارٹر اور تمام علاقائی دفاتر میں خصوصی شکایت سیل قائم کئے گئے ہیں کیونکہ بزنس کمیونٹی ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ڈپٹی چئیرمین نیب حسین اصغر وائٹ کالر کرائمز کے خلاف تحقیقات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل آپریشنز ظاہر شاہ اور نیب کے تمام علاقائی دفاتر کے ڈائریکٹر جنرلز مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے لئے انویسٹیگیشن آ فیسر کے کام کا محنت سے جائزہ لیتے ہیں۔
عدالتوں میں نیب مقدمات کی موثر پیروی کے لئے تجربہ کارلیگل کونسل،پراسیکیوٹز،ڈپٹی پراسیکیوٹرز،ایڈیشنل پراسیکیوٹرز جنرل اور قانونی ٹیم شامل کرتا ہے پاکستان اقوام متحدہ کے انسداد بدعنوانی کے قومی کنونشن کا پاکستان میں فوکل ادارہ ہے کیونکہ پاکستان نے یو این سی اے سی پر دستخط کر رکھے ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جس نے بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کررکھے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے جاری منصوبوں میں شفافیت یقینی بنانے کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں ملک میں کرپشن کے خاتمہ کی کوششوں پر ہی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل پاکستان، پلڈاٹ اور مشال پاکستان نے کرپشن فری پاکستان کے تناظر میں لوگوں کو بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے لوگوں کو بدعنوانی سے متعلق آگاہی پر نیب کی کوششوں کو سراہا ہے۔
گیلپ سروے کے مطابق 59 فیصد عوام نیب پر اعتماد کرتے ہیں نیب سارک اینٹی کرپشن فورم کا چیئرمین ہے جو کہ نمایاں کامیابی ہے یہی وجہ ہے کہ نیب سارک ممالک کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیب نے سکولوں اور کالجوں میں طالب علموں کو بدعنوانی کے برے اثرات سے آگاہ کرنے کے لئے کردار سازی کی انجمنیں قائم کی ہیں کیونکہ یہ نوجوان ملک کا مستقبل ہیں نیب نے آگاہی، تدارک اور انفورسمنٹ کی پالیسی اپنا کرمیگاکرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے پر توجہ مرکوز کررکھی ہے نیب کو مجموعی طور پر 2019میں 53ہزار 643 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 42 ہزار 760 شکایات کو نمٹا دیاگیا ہے اسی طرح سال 2018 میں 48 ہزار 598 شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں سے 41ہزار 414 کو نمٹایا گیا تھا دستاویزات اور فنگر پرنٹ کی جانچ پڑتال اور ڈیجیٹل ڈیٹا کے تجزیہ کے لئے نیب راولپنڈی میں فرانزک سائنس لیبارٹری قائم کی گئی ہے۔
اس لیبارٹری میں 50 کیسز میں 15ہزار 747 دستاویزات کی جانچ پڑتال، 3 ہزار انگوٹھا کے نشانات کا جائزہ لیاگیا جبکہ 74ڈیجیٹل ڈیوائسز (لیپ ٹاپ، موبائل فون، ہارڈڈسک وغیرہ)کا فرانزک تجزیہ کیا گیا میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت نیب ہر قسم کی بدعنونی کے خاتمے کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے لئے پر عزم ہے اگر نیب جیسا ادارہ نہ ہوتا تو آج کرپشن کے کنگ ہمارے سامنے بے نقاب کیسے ہوتے اگر نیب کا ڈرلٹیروں کو نہ ہوتا تو آج پوری قوم بھیک مانگ رہی ہوتی نیب کی ان تمام کوششوں کے پیچھے افسران کا جذبہ حب الوطنی شامل ہے جو ملک سے کرپشن کے خاتمہ کے لیے کرپٹ افراد سے لڑ رہے ہیں اگر نیب اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تو پھر یہ نیب کا پاکستان ہوگا چوروں،ڈاکوؤں اور لٹیروں کا نہیں آخر میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ان خصوصی کاوشیں کو بھی سلام جو ناقابل فراموش ہیں جنہوں نے نفسا نفسی کے اس دور میں پاکستان کو نیب جیسا باوقار ادارہ بنا کردیا اور انکی کی طرف سے یہ ہدایات بہت اہم ہیں اور قابل تعریف ہیں جس میں انہوں نے تمام علاقائی بیوروز کو ہدایت کی کہ وہ قانون کے مطابق شکایات کی جانچ پڑتال، انکوائریوں اور انویسٹی گیشنز کو نمٹائیں اور ہر فرد کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔