تم سے نہ ہو پائے گا کچھ

kidnapping

kidnapping

تحریر: نادیہ خان بلوچ کوٹ ادو
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے ایک صاحب نے بتایا ہمارے شہر کوٹ ادو میں بچے اغوا کرکے انکے ساتھ زیادتی کرنے والا 6 افراد کا گروہ پکڑا گیا اور بچے بھی بازیاب کرا لیے گئے. یہ گروہ بچوں کو کھیلتا دیکھ کر چیز دلانے کے بہانے انہیں پاس بلاتا بچے چاکلیٹ ٹافی کی لالچ میں کھنچے چلے آتے پھر یہ بیہوش کرکے انہیں اغوا کر لیتے. یہ خبر سن کر مجھے ایک شاکڈ سا لگا مجھے سب سے پہلے اپنے بہن بھائیوں کا خیال آیا. میں نے انہیں بلاوجہ گھر سے باہر نکلنے،گلی میں کھیلنے سے سختی سے منع کردیا. یہ میری نہیں تقریبا ہر گھر کی کہانی ہے. ہمارے ملک،ہمارے علاقے کے حالات ہی ایسے ہو چکے ہیں سبکو اپنے بچوں کی حفاظت کا ڈر لگا رہتا ہے. ہمارے معاشرے کا یہ بدترین المیہ ہے کہ بچے جنہیں جنت کے باغ کے پھول کہا گیا ہے وہی محفوظ نہیں۔

آئے روز ٹی.وی، اخبار اور سوشل میڈیا پر ایسے بیشمار واقعات سننے کو ملتے ہیں جہاں بچے اغوا کرکے انکے ساتھ زیادتی اور پھر مارے جانے یا پھر بیہوشی کی حالت میں کسی جگہ پھینکے جانے کی خبریں موصول ہوتی ہیں شاید ہی کوئی دن ایسا ہوجس دن نیوز بلیٹن یا اخبار میں کوئی ایسی خبر نہ ہو. اگر دیکھا جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق 2016ئ شروع ہونے سے اب تک ملک بھر میں 769 بچے اغوا ہوئے. جن میں سے 600 سے زائد کا تعلق پنجاب سے ہے. اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے ان 600 معصوم بچوں میں 300 سے زائد بچے لاہور کے ہیں. یہ تو صرف وہی تعداد ہے جو رپورٹ ہوئی. کیسسز ہوئے. ورنہ ایک بڑی تعداد میں تو کچھ علاقوں میں یہ کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے. کیونکہ دیہاتوں،قصبوں اور چھوٹے شہروں میں ایسے واقعات میڈیا اور قانون دونوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں. اتنی بڑی تعداد میں بچوں کا اغوا ایک لمحہ فکریہ ہی ہے. بچوں کے اغوا کے بہت کم ہی کیسسز اغوا برائے تاوان کے ہوتے ہیں۔

child kidnapping

child kidnapping

ورنہ باقی میں تو نفس کی پیروی اور ہوس ہی یہ سب کام کرواتی ہے. اگر ماضی کی بات کی جائے تو پچھلے 6 سالوں میں 6793 بچے اغوا ہوئے جن میں 6654 بچے بازیاب کرائے گئے. باقی کا کچھ پتہ نہ چلا اب تک. پولیس قانون سب بے بس نظر آتے ہیں. ایک وائرس کی طرح یہ زہر ہمارے بچوں کو نگلتا جارہا ہے. بچوں کے معصوم ذہنوں پر کافی برے اثرات مرتب کررہا ہے. بچے بہت معصوم ہوتے ہیں انکو بچپن میں زندگی کے جس سٹیج پر سے گزرنا پڑتا ہے، یا وہ جو معائنہ کرتے ہیں سب واقعات ان کے ذہن پر بہت گہرے اثر چھوڑ جاتے ہیں تا عمر وہ اس شکنجے سے باہر نہیں نکل پاتے. کچھ یہی وجہ ہے ہماری موجودہ نسل ڈپریشن،تنہائی پسندی کا شکار ہے. کیونکہ ان کے ذہنوں میں ایک خوف سا بیٹھ جاتا ہے. خود اعتمادی،لوگوں پر اعتبار کہیں کھو سا جاتا ہے۔

ہماری ایک بہت بڑی خامی ہے ہم اپنی غلطیوں کا بوجھ کبھی خود نہیں اٹھانا چاہتے. سانپ کے گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتے ہیں. ہم اپنے ارد گرد کے ماحول سے باخوبی واقف ہونے کے باوجود بھی محتاط نہیں رہتے. اس میں سے سب سے زیادہ اگر کوئی قصور وار ہے تو وہ ہمارے معاشرے کے اندر پنپتی سوچ اور گھٹیا نظام ہے۔

انسانیت لوگوں میں مر گئی ہے. بچوں اغوا ہونا بہت زیادہ بڑھ چکا ہے. بڑے بڑے لوگوں کے بیٹوں سے لیکر عام آدمی تک کے بچے اغوا ہورہے ہیں. کوئی نہیں جانتا کیوں ہورہا ہے. بڑے لوگوں کے بچے اگر اغوا ہوجائیں تو پولیس،میڈیا،آرمی سب ایک ہوجاتے ہیں. مگر غریب کاکوئی پرسان حال نہیں ہوتا. بڑے لوگوں کے بچوں کا اغوا ہونا سمجھ میں بھی آتا ہے کہ شاید پیسے کیلئے ہو مگر ہم جیسے غریبوں کے پاس کسی کو دینے کیلئے کیا؟ کوئی کیوں کرے گا؟۔

Abused Children

Abused Children

2015ء میں جب بچوں کے ساتھ زیادتی کا ایک بہت بڑا سانحہ منظر عام پر آیا تب لوگوں نے وقتی طورپر واویلا کرکے پھر سے اسے فراموش کردیا. کوئی قانون کوئی بل کچھ بھی عملی طورپر سامنے نہ آیا. لوگ بھی اس واقعہ کو پھر ماضی کا حصہ سمجھ کے بھول گئے جیسے انکے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوسکتا. ہوس کے ماروں نے اس بات سے خوب فائدہ اٹھایا. گروہ کی شکل میں ہر جگہ پھیل گئے. مگر ہماری حکومت کو ہوش تب بھی نہ آیا نہ ہی اب آئے گا. اس گروہ کا سب سے بڑا ٹارگٹ لاہور ہے. لاہور میں بچوں کے ساتھ اغوا اور زیادتی کے واقعات سب سے زیادہ ہیں. مگر وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں خاموش ہیں. کسی نے اس مسلے پر نظر ثانی کرنا تو دور اس پر بات کرنا بھی گوارہ نہیں کیا. اغوا کا یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے. جس طرح دہشت گردی میں بچوں کے سکولوں پر حملے کا ڈر تھا اسی طرح اب بچوں کے اغوا ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے. کچھ سمجھ نہیں آتا آخر بچے جا کہاں رہے ہیں. بچے بھی اس عمر کے کہ جنکو شعور ہو سمجھ ہو۔

ضرور اس کے پیچھے کوئی بڑا ہاتھ ہی ہے. انکو اگر روکنا ہے تو چائلڈ پروٹیکشن قانون مظبوط کرنا ہوگا. بچوں کے اغوا کے کیسسز میں قید مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینی ہوگی. صرف باتوں یا بل پاس کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اسکا عملی کارنامہ دکھایا جائے. بل پاس ہونے کو تو حقوق نسواں بل بھی پاس ہوا تھا اسکا جو حال ہوا سب جانتے ہیں.عوام روتی پیٹتی رہے گی ہماری حکومت اپنے ذاتی جھگڑوں سے باہر نہیں آئے گی. اگر ملک کے مستقبل کی حفاظت یہ لوگ نہیں کرسکتے تو اپنے ہاتھوں سے ہی اپنا یہ فرض آرمی کو سونپ دیں. کیونکہ بڑے لوگوں کے بچوں کی طرح ہمارے بچے بھی آرمی بازیاب کرا ہی لے گی۔

بچوں کے ساتھ زیادتی اور اغوا کے واقعات ہمسایہ ملک بھارت میں بھی خاصی بڑی تعداد میں ہوتے ہیں مگر وہاں اس کی روک تھام کیلئے قانون بھی بنائے گئے ہیں. مگر ہماری حکومت کی شان میں تو صرف یہی کہا جاسکتا ہے،
“تم سے نہ ہو پائے گا کچھ”

Nadia Khan

Nadia Khan

تحریر: نادیہ خان بلوچ کوٹ ادو