سبھی رنج و الم، افسانہ ئِ غم فقط احساس کی محرومیاں ہیں محترمہ کی بات بہت حد تک درست ہے مگرارض پاک میںصرف احساس کی محرومیاں ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ ہم پہ وارد اور آشکار ہے۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ میں کوئی پیشہ ور کالم نگار نہیں۔ یہ میرے ضمیر کی آواز ہوتی ہے جو میرے قلم سے نکل کر صفحہئِ قرطاس پر بکھرے ان بے ربط لفظوں کی صورت آپ احباب تک پہنچتی ہے۔
مقرر ہوں، نہ واعظ ہوں، نہ میں شاعر ہوں لفظوں کا زباں بس ساتھ دیتی ہے، میں باتیں دل سے کرتا ہوں معاشرے میں موجود برائیوں کو منظر عام پر لانا اور ان کے تدارک کے لئے آواز اٹھانا میری پہلی ترجیح رہی ہے لیکن عام آدمی کو درپیش مشکلات اور افسر شاہی کو بے نقاب کرکے مظلوموں کی داد رسی کرنا بھی از حد ضروری ہے۔ ایک عام آدمی کو روزمرہ زندگی میں قدم قدم پر قومی شناختی کارڈ کی ضرورت پڑتی ہے۔
بڑے لوگ تو ویسے بھی یہاں قانون سے مبرّا ہیں۔ فارم ب لینا ہو یا شناختی کارڈ بنوانا ہو یا پھر مسئلہ پا سپورٹ کے حصول کا ہو، ایسے میں نادرا کے دفاتر کا رخ کرنا پڑتا ہے اور وہاں جا کر کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یا کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ صرف اسی کو ہو سکتا ہے جسے اس سے واسطہ پڑا ہو۔ دفتر کے باہر ایجنٹ مافیا کا راج ہے تو دفتر کے اندر بھی غریب کی سننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا۔
Employees
ان دفاتر میں کام کرنے والے زیادہ تر ملازمین سیاسی روابط کی بنا پر بھرتی ہوئے ہوتے ہیں اس لئے انہیں کسی قسم کا کوئی ڈر، خوف نہیں ہوتا اور وہ اپنی من مانی کرتے نظر آتے ہیں۔ عوام چاہے قطار میں لگے باری کے منتظر ہوں یہ کائونٹر بند کر کے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں۔اپنے اثر و رسوخ کے گھمنڈ میں ڈوبے ان ملازمین کوبات تک کرنے کی تمیز نہیں ہوتی۔ایک بات دوبارہ پوچھنے پر کھا جانے کو دوڑتے ہیں۔ بعض گنجان آباد علاقوں میں قائم نادرا دفاتر کے باہر نہ تو بیٹھنے کے لئے مناسب جگہ ہے اور نہ پینے کا پانی۔ دور دراز سے گھنٹوںکا سفر طے کر کے آنے والوںکوجب بیٹھنے کو سایہ دار جگہ، درست حالت میں بینچ، ٹھنڈا پانی نہ ملے تو ان پر کیا بیتتی ہو گی۔
شاید لفظوں میں بیان کر پانا ممکن نہیں۔گھنٹوں قطار میں کھڑے ہونے کی اذیت اس کے علاوہ ہے۔ کئی جگہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مردو خواتین ایک ہی قطار میں لگے دکھائی دیتے ہیں چونکہ وہاں صرف ایک ہی کائونٹر بنایا گیا ہوتا ہے۔بزرگ شہریوں کو بھی کوئی رعایت نہیں۔
انہیں بھی اسی قطار میں لگنا پڑتاہے۔اور یہ اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ معذور اور بیمار لوگوں کے لئے یہ عمل کتنا تکلیف دہ ہو گا، جس پہ بیتے وہی جانے۔ نادرا دفاتر کے باہر لگا نمبرجس کے اوپر یہ تحریر درج ہوتی ہے ” شکایات کا ازالہ نہ ہونے کی صورت میں اس نمبر پر رابطہ کریں” بھی محض رسمی کاروائی ہے۔
دیگر اداروں کی طرح یہاں بھی ایجنٹ مافیا اپنی جڑیں بہت مضبوطی سے گاڑ چکی ہے۔ سیدھے سادھے لوگوں کو پھانسنے میں یہ ایجنٹ بہت ماہر ہوتے ہیں۔ لوگوں سے حیلے بہانوں سے ہزاروں روپے ہتھیا لئے جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ نادرا انتظامیہ سب جاننے کے باوجود انجان بنی نظر آتی ہے۔
یہ بات کہ نادرا کے اہلکار خود ان ایجنٹوں کی پشت پناہی کرتے ہیں اور ان سے منتھلی وصول کرتے ہیں اس وقت درست معلوم پڑنے لگتی ہے جب جنس تبدیل کر دی جاتی ہے، نام یا ولدیت غلط لکھ دی جاتی ہے، عوامی مرکز سے مرکزی دفتر اور پھر مرکزی دفتر سے دوبارہ عوامی دفتر کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔
کارڈ گم ہونے کی صورت میں مختلف حیلے بہانوں سے ایجنٹ حضرات کی راہ دکھائی جاتی ہے۔اور یہ ایجنٹ اس قدر شاطر ہوتے ہیں کہ پیسے لے کر ہر غیر قانونی کام کروا دیتے ہیں۔ نادرا دفاتر کے باہر یہ ایجنٹ اور دفاتر کے اندر بیٹھے افسران شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اس جہاں کے بعد بھی اک جہاں ہے۔ وہاں بھی اک عدالت ہو گی۔ وہاں کسی ایم پی اے، ایم این اے کی نہیں چلے گی۔ وہاں ان کا گریبان ہو گا اور ان ناداروں کے ہاتھ۔