(گزشتہ سے پیوستہ )سچائی اور حقیقت کو اس قدر لفافوں میں بند کرنے کا میں قطعا ًقائل نہیں کہ سچائی کادم ہی گھٹ جائے لیکن ہمارے ہی قلم قبیلے کے بعض ,,قلم کار ،، ,,قلمی قوال ،، اور ,,میر منشی ،،ایسے بھی ہیں جو ,,لفافہ ،،لے کر سچ کو سیاہ لفافوں اور حکمرانوں کے سیاہ کر توتوں کو سات پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ان کی بھی مجبوری ہے کیونکہ اسی طرز عمل سے ان کی روٹی روزی جڑی ہوئی ہے جس طرح صحافت میں چند گنے چنے ,,پھنے خانوں ،، کی اجارہ داری ہے۔
صحافت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح سیاست پر بھی اپنی اجارہ داری کا دعویٰ کرنے والے ,,سیاسی پنڈتوں،،کا قبضہ ہے 1948ء سے 2011ء تک پھیلی اس درد ناک کہانی میں چند گنے چنے خاندان ہی ہیں جنہوں نے ,,باری باری ،، غریب اور مجبور عوام کی قسمت کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔
کئی خون میں لتھڑے فسانے ہیں کئی نشے میں بد مست کردار ہیں تو کئی انا کے مارے نا خدا ،مگر سمجھے سب خود کو خدا ہی تھے اور ہیں بقول انقلابی شاعر تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا اس کو بھی اپنے خدا ہو نے کا اتنا ہی یقین تھا شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت پر”بونے ” ”تھرڈلے ”اورزمینی حقائق سے ناواقف ”قالم نگار’ ‘اُ نگلیاں اُٹھا رہے ہیں جن کو صحیح معنوں میںقلم پکڑنا بھی نہیں آتا ،لکیرکے فقیر نظر آتے ہیںآج ” نقشِ خیال ” قوم کے سامنے لا رہا ہوں کہ کون کون سا” قالم نگار ” ” سویرے سویرے ” کس کے دستر خواں سے چچوری ہڈیاں چوستا ہے ، ہمارے ہی شہر کے ایک جمہوریت پسند اور انقلابی ذہن رکھنے والے شاعر جناب ِ عقیل احمد رشید نے بہت خوبصورت بات کی ہے ہے کام دلوں کی ترجمانی کرنا ہو ظلم جہاں بیاں کہانی کرنا ایوانِ یزیدیت میں حق کہتا ہوں ظلمات کی ختم حکمرانی کرنا ہاتھوں میں مرے قلم ہے کشکول نہیں انسان ہے انمول کوئی مول نہیں دن رات ہے حُرمت ِ قلم پیشِ نظر ہوں حق گو نگارش میں کہیں جھول نہیں
Writer Logo
ایک اور جگہ لکھتے ہیں اور یقیناََ ایسے اہل ِ صحافت کی نمائندگی کرتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ قلم کی حُرمت کو پیش ِ نظر رکھا ہے اور اپنے دامن کو ”دیہاڑی کی صحافت ” سے آلودہ نہیں ہو نے دیا اور حقیقی معنوں میں سوسائٹی میں شعوری کلچر کو عام کیا۔
ہمارے ملک میں دیہاڑی کلچر عام ہے ، ایسے نام نہاد لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو گلے میں کسی ڈمی اخبار کا کارڈ لٹکائے سارا دن دفتروں میں دیہاڑی کے چکر میں خجل خوار و ذلت کی تصویر بنے آوارہ لوگوں کی طرح پھرتے رہتے ہیں رباعی ملاحظہ کیجئے معاشرے کو صحافی شعور دیتے ہیں چراغ ِ طور جلاتے ہیں نور دیتے ہیں نئی سحر کا وطن کو ظہور دیتے ہیں سُنا کے پیار کے نغمے سرور دیتے ہیں ہمارے معاشرے کے جو حالات ہیں درج ذیل ایک اور نظم پڑھ کر سب کچھ آشکار ہو جائے گا کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے آفاقی اور کائناتی نظریے کی بنیاد پر معرض ِ وجود مملکت میں جاگیر دار ، سرمایہ دار ، زردار اور زور دار کے پالتو کُتوں اور گھوڑوں کو توٹھنڈے مخملیں بیڈ اور مُربے”نصیب ” ہو رہے ہیں مگر دوسری طرف اُسی جاگیر دار کے ووٹرز کا بچہ دودھ کے چند قطروں کو ترس رہا ہے نظم ملاحظہ کیجئے ! بھوک افلاس کے عفریتوں کو دیکھتے ہیں اور ڈر جاتے ہیں کتنے قاسم ، کتنے ٹیپو بچپن ہی میں مر جاتے ہیں ماں کی جھولی خالی کر کے قبروں کے منہ بھر جاتے ہیں فاقوں کی اِک نائو بنا کر دریا پار اُتر جاتے ہیں یہاں کُتوں کو ملتا ہے سب کچھ بچے بھوک سے مر جاتے ہیں (جاری ہے)