تحریر : مدیحہ ریاض وہ روز شام کو پڑھنے جاتی اس روز بھی وہ اپنے ادارے میں جانے کے لئے 8 سیٹوں والے آٹو میں بیٹھ گئی اور آٹو جیسے ہی اگلے اسٹاپ پے پہنچا وہاں ایک اٹھارہ سالہ لڑکا جس کے ہاتھ ٫ ٹانگے اور پاؤں مڑے ہوئے تھے وہ آٹو پے چڑھنے کی کوشش کرنے لگا اور تقریبا 7 منٹ اس نے مسلسل کوشش کی مگر ناکام رہا جب وہ آٹو پے چڑھنے کوشش کر رہا تھا تب آس پاس کافی افراد بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے اس معذور لڑکے کی کسی نے مدد نہ کی حتیٰ کہ اس نے بھی نہیں کی حالانکہ وہ بھی اسی آٹو میں سوار تھی وہ سوچتی رہ گئی کہ وہ اسکی مدد کرے یا نہ کرے کیونکہ وہ لڑکی تھی اگر وہ اس معذور لڑکے کی مددکرتی تو شائدلوگوں کو یہ بات ہضم نہ ہوتی ،لیکن کوئی اسکی مدد کرنے کے لئے آگے بھی تو نہیں بڑھ رہا تھا۔
بہرحال اس لڑکی نے فیصلہ کیا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن اگلے ہی لمحے آٹو رکشہ آگے بڑھ گیا لڑکی کا ہوا میں ہی بلند رہ گیا اور وہ معذور شخص سڑک پر اوندھے پڑا اپنی بے کسی اور معاشرے کی بے حسی پر سوالیہ نشان بن کر رینگتا ہوا خود کو پیچھے آنے والی گاڑیوں سے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ اس سے کافی دور وہ لڑکی آٹو میںبیٹھی ہوئی اب بھی سوچ رہی تھی کہ دنیا تیز رفتار ہو چکی ہے یا بے حس۔۔۔۔ رکشہ مقررہ اسٹاپ پر رکا ہوا تھا سب سواریاں اتر چکی تھیں اور وہ۔۔۔۔ اس سے اٹھا نہیں جا رہا تھا شائد اب اس کو کسی سہارے کی ضرورت تھی۔