نمیبیا (اصل میڈیا ڈیسک) نمیبیا کے ہیریرو اور ناما افراد کی نمائندگی کرنے والی تنظیم، سرداروں کی کونسل، نے جرمنی کی نو آبادیاتی حکومت کے دور میں نسل کشی کے لیے معافی کے طور پر انفرااسٹرکچر پروجیکٹو ں کے لیے مالی امداد کی پیشکش مسترد کر دی۔
قبائلی رہنماوں کے ایک گروپ نے نمیبیا میں پیر کے روز جرمنی کی طرف سے اس مجوزہ پیش کش کو مسترد کردیا جس میں جرمنی نے تسلیم کیا تھا کہ نو آبادیاتی قبضے کے دوران قتل کے واقعات نسل کشی کے مترادف تھے اور اس کے لیے زرتلافی کے طورپر 1.34ارب ڈالر کی مالی امداد دینے کی پیش کش کی تھی۔
جرمنوں نے اس نوآبادی پر سن 1904سے 1908 کے درمیان برلن حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے ہیریرواور ناما قبائل کے ہزارو ں افراد کو قتل کر دیا تھا۔ اس علاقے کواس وقت جرمن جنوب مغربی افریقہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔
جرمن حکومت نے گزشتہ ہفتے با ضابطہ طورپر تسلیم کیا تھا کہ وہاں نسل کشی ہوئی تھی اور اسے اگلے تیس برسوں کے دوران 1.34 ارب ڈالر کی مالی امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس رقم کا استعمال مالیاتی انفراسٹرکچر، صحت کی دیکھ بھال اور تربیتی پروجیکٹوں کے لیے کیا جائے گا۔
تاہم قبائلی سرداروں کی کونسل نے پیر کے روز ایک بیان جاری کرکے اس رقم کو ‘توہین آمیز‘ اور ’نا قابل قبول‘ اورپیش کش کو ’اپنے وجود کے لیے ہتک‘ قرار دیا۔
گروپ نے نمیبیا کی حکومت سے کہا کہ وہ اس معاملے پر از سرنو بات چیت کرے کیونکہ مذکورہ رقم کا زرتلافی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
جرمن وزیر خارجہ کی طرف سے جمعے کے روز مجوزہ معاہدے کے اعلان کے بعد نمیبیا کے دارالحکومت ونڈہوک میں بعض قبائلی رہنماوں نے جرمن سفارت خانے کے باہر مظاہرے کیے۔ اسی طرح کا ایک مظاہرہ پیر کے روز برلن میں بھی ہوا۔
اہم مذاکرات کار زیڈ نجیویرو نے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کونسل بات چیت کے تمام مراحل میں شامل رہی تھی۔”میں سمجھتا ہوں کہ جرمنی اس حقیقت سے واقف ہے کہ اس ملک میں اختلافات موجود ہیں۔” انہوں نے مزید کہا”ونڈہوک اب اس بات کا تجزیہ کر رہا ہے کہ قبائلی رہنماوں کے بیانات کو کس حد تک سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے۔“
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے جمعے کے روز کہا تھا کہ پانچ برسوں سے زیادہ عرصے تک چلنے والی بات چیت کے بعد جرمنی”موجودہ حالات کے پس منظر میں نو آبادتی دور میں ہونے والے واقعات کو سرکاری طور پر ‘نسل کشی‘ تسلیم کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا”جرمنی کی تاریخی اور اخلاقی ذمہ داری کی روشنی میں ہم نمیبیا اور متاثرین کے وارثین سے معافی کی درخواست کریں گے۔“
ہائیکو ماس نے بتایا تھا کہ 1.34 ارب ڈالر کا ایک فنڈ قائم کیا جائے گا اور متاثرہ کمیونٹیز یہ فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی کہ اس رقم کا استعمال کس طرح کیا جائے۔ جرمن وزارت خارجہ نے واضح کیا تھا کہ قانونی دعووں کو نمٹانے پر آنے والے اخراجات اس فنڈ میں شامل نہیں کیے جائیں گے۔
نمیبیا کے صدر کے ترجمان حامی گنجوب نے جرمن حکومت کے فیصلے کو’درست سمت میں مناسب قدم‘ قرار دیا ہے۔
جرمنی نے سن 1884میں نمیبیا پر قبضہ کرلیا تھا اور پہلی عالمی جنگ کے دوران 1915میں شکست سے قبل تک یہ علاقہ اسی کے پاس تھا۔
جرمنوں نے وہاں اپنی حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے انتہائی بربریت کا مظاہرہ کیا اور ہیریرو اور ناما کے ہزاروں افراد کا قتل کردیا۔
برلن نے بغاوت کو کچلنے کے لیے لوتھر وان تروتھا نامی ایک جرمن جرنیل کو وہاں بھیجا جس نے لوگوں کا قلع قمع کر دینے کا حکم دیا۔ اس کے فوجیوں نے مردوں، عورتوں اور بچوں کو ان کے گھروں سے نکال نکال کر تعذیبی کیمپوں میں ڈال دیا۔ بہت سے لوگوں سے غلاموں کی طرح خدمت لی گئیں جب کہ ہزاروں دیگر پیاس، بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔
گوکہ جرمنی نے ماضی میں ان ہلاکتوں کے لیے اپنی ”اخلاقی ذمہ داریوں” کا اعتراف کیا تھا لیکن جرمن حکام زرتلافی ادا کرنے سے بچنے کے لیے ایک عرصے تک باضابطہ معذرت کرنے سے گریز کرتے رہے۔
جرمن حکام کے اس رویے کی وجہ سے بہت سارے مورخین نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہونے والے قتل کے ان واقعات کو ”فراموش کردہ نسل کشی” قرار دیا ہے۔ ان واقعات کی وجہ سے مغربی افریقی ملک کے ساتھ تعلقات میں دہائیوں تک تلخی رہی تھی۔