کراچی (جیوڈیسک) ماورائے عدالت قتل کیے گئے نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے معاملے پر قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کے الزامات مسترد کرتے ہوئے مقتول کو بے گناہ قرار دیا ہے۔
نقیب کے دہشت گرد ہونے کے ثبوت نہیں ملے ابتدائی رپورٹ کے مطابق راؤ انوار نے نقیب کے غیر شادی شدہ ہونے کا غلط دعویٰ کیا اور دیگر دعوے بھی غلط ثابت ہورہے ہیں۔ راؤ انوار کی نقیب کے خلاف 2014 کی ایف آئی آر بھی بوگس ہے۔
ادھر ایس ایس پی ملیر کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ حکومت سندھ کو ارسال کردی گئی ہے جس میں راؤ انوار اور دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنےکی سفارش کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ میں راؤ انوار کو عہدے سے ہٹانے، گرفتار کرنے اور ان کا نام ای سی ایل میں بھی ڈالنے کی سفارش کی گئی۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی اور معاملے پر بننے والی کمیٹی کے سربراہ ثناء اللہ عباسی نے کہا تھا کہ واقعے کی تحقیقات میں ان پر کوئی دباؤ نہیں اور نہ کسی میں اتنی جرت ہے کہ انہیں دباؤ میں لائے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس پارٹی سے تحقیقات کی گئیں اور ان کی ٹیم اس سلسلے میں جیل بھی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کیس کی تحقیقات میرٹ پر ہورہی ہیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
پولیس پر معاملے میں دباؤ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں اور نہ ہی کسی میں ایسا کرنے کی جرت ہے، ہم ضمیر کے ملازم ہیں، سندھ پولیس کسی بھی کیس کی تحقیقات میں آزاد ہے۔
جمعے کے روز چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کا ازخود نوٹس لیا۔
چیف جسٹس نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ سے 7 روز میں واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
ان میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور کالعدم لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ بھی شامل تھا۔
راؤ انوار کا دعویٰ تھا کہ نقیب اللہ جیل توڑنے، صوبیدار کے قتل اور ایئرپورٹ حملے میں ملوث مولوی اسحاق کا قریبی ساتھی تھا۔
تاہم نقیب اللہ کے رشتے داروں اور دوستوں نے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو ‘جعلی’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مقتول کاروبار کے سلسلے میں کراچی آیا تھا۔
نقیب اللہ کے ایک رشتے دار نے بتایا کہ ‘مقتول ایک سال قبل جنوبی وزیرستان سے کراچی آیا تھا، اس کی الآصف اسکوائر پر کپڑے کی دکان تھی اور وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا’۔
واضح رہے کہ راؤ انوار کو ‘انکاؤنٹر اسپیشلسٹ’ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو اس سے قبل بھی متعدد مبینہ پولیس مقابلوں میں کئی افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کر چکے ہیں۔