تحریر : قادر خان یوسف زئی کراچی میں جعلی پولیس مقابلوں کے رجحان کے خاتمے کا ایک اچھا موقع نقیب اللہ محسود قتل کیس کی صورت میں میسر آیا ہے۔ نقیب اللہ محسود کے ماورائے قانون قتل کے بعد کراچی میں جس موثر انداز میں ماورائے قانون قتل پر تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوئی ہیں یہ کراچی میں جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے مثبترجحان کی جانب موثر قدم ہے ۔ ماضی میں ماورائے عدالت ہلاکتوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے تحقیقات کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں لیکن نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد پولیس کے انتہائی با اثر افسر کے خلاف منظم ملک گیر احتجاج نے جعلی پولیس مقابلوں کے متاثرین کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کردیا ہے ۔ نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل پر ملک بھر میں مظاہرے کئے جا رہے ہیں ۔23جنوری کو ایس پی راؤ انوار کے خلاف محمد خان محسود کی مدعیت میں ایف آئی آر درج ہوچکی ہے ۔ ایف آئی آر کے مطابق نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان محسود کا کہنا تھا کہ3 جنوری کو مبینہ طور پر راؤ انوار کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار ان کے بیٹے نقیب اللہ اور حضرت علی اور قاسم کو اٹھاکر لے گئے بعد میں 6 جنوری کی شب حضرت علی اور قاسم کو سپر ہائی وے پر چھوڑ دیا لیکن راؤ انوار نے نقیب اللہ کو قید رکھا اور اس کے موبائیل فون بھی بند کردیا۔ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ نقیب اللہ کے رشتے دار اس کی تلاش کرتے رہے لیکن معلوم نہیں ہوا۔ ان کے والد نے ایف آئی آر میں کہا کہ 17 جنوری کو ٹی وی اور اخبارات سے انھیں معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کو راؤ انوار اور اس کے اہلکاروں نے جعلی مقابلے میں ہلاک کردیا لہذا ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔پولیس انسپکٹر شاکر نے ایف آئی آر میں تحریر کیا ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلا اس لیے اس میں انسداد دہشت گردی کی بھی دفعہ شامل کی گئی ہے۔
نقیب اللہ محسود کے اہلخانہ اور قریبی ساتھیوں نے اس دعوے کو مسترد کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا کسی شدت پسند تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ کراچی میں محنت مزدوری کرتے تھے اور ماڈلنگ کے شعبے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ تاہم ابھی تک ایس پی رائو انوار کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے دیکھنا یہ ہے کہ آئی جی سندھ نے رائو انوار کی گرفتاری کیلئے سپریم کورٹ سے تین دن کی جو مہلت طلب کی ہے اس میں کہاں تک پیش رفت ہوتی ہے ۔ جبکہ دوسری جانب ایس پی رائو انوار نے گرفتاری دینے کے بجائے خود کو بے گناہ قرار دیا ہے اور اپنے ہی اعلیٰ حکام پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جتنے بھی پولیس مقابلے ہوئے یہ ایک پالیسی کے تحت ہوئے ۔ اگر میرے خلاف مقدمہ بنتا ہے تو دفعہ109کے تحت سب کے خلاف ایف آئی آر ہونی چاہیے ۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے رائو انوار کے الزامات سختی سے رد کرتے ہو ئے کہا کہ وہ خود کو قانون کے حوالے کریں،اورجے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں۔ آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ رائو انوارقانون سے بچنے کیلئے بے بنیادالزام تراشی کاسہارالے رہے ہیں، نہ کبھی ماورائے عدالت مقابلوں کے احکامات دیے نہ یہ سندھ پولیس کی پالیسی رہی ہے۔آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا کہ رائوانوارجھوٹ بولنے سے بازآئیں اور خود کوقانون کے حوا لے کریں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کررہا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹائون میں نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا از خود نوٹس لیا تھا اور رائو انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں آج(27جنوری) کو عدالت میں طلب کیا تھا۔ لیکن رائو انوار حسب توقع عدالت میں پیش نہیں ہوا ۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کہیں بااثر شخصیات نے تو رائو انوار کو چھپایا نہیں ہے ۔ آئی جی سندھ نے عدلیہ کو بتایا کہ رائو انوار مفرور ہے ، اسلام آباد میں موجودگی کے وقت مقدمہ درج نہ ہونے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا تھا ۔ تاہم آئی جی سندھ نے عدلیہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ رائو انوار کو گرفتار کرلیں گے۔
عوامی حلقوں میں اس بات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ رائو انوار پاکستان سے’ چور دروازے’ سے فرار ہوچکے ہیں ۔ غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے بیرون ملک چلے جانا ناممکن نہیں ہے۔ عزیر بلوچ ، حماد صدیقی ،سمیت کئی ملزمان ہیں جو پاکستان میںمقدمات درج ہونے کے باوجود بیرون ملک فرار ہوئے۔ عزیر بلوچ کی گرفتاری بھی انٹر پول کی توسط سے عمل میں لائی گئی تھی اس وقت بھی عام تاثر یہی تھا کہ عزیر بلوچ کو با اثر سیاسی شخصیات کا آشیر باد حاصل ہے ۔ رائو انوار کے حوالے سے سندھ پولیس کا محکمہ سرگرم نظر آتا ہے کیونکہ رائو انوار کے با اثر شخصیات کے ساتھ تعلقات اور اثر رسوخ کی وجہ سے محکمے کے کئی افسران نالاں تھے ۔ کراچی میں سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے بھی استفسار کیا کہ بتائیں کہ 15 دن میں راؤ انوار نے بیرون ملک سفر تو نہیں کیا، یہ بھی بتائیں کیا راؤ انوار نے نجی طیارے میں سفر کیا کہ نہیں، آپ کیوں تفصیلات ساتھ نہیں لائے۔چیف جسٹس نے ڈی جی سول ایوی ایشن سے کہا کہ کس کے طیارے آپ کے پاس ہیں، نام بتائیں، تمام چارٹرڈ طیارے رکھنے والے مالکان کے حلف نامے پیش کریں، بتایا جائے کہ ان کے طیاروں میں راؤ انوار گیا کہ نہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے راؤ انوار کے بیرون ملک سفر کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ سے جواب طلب کرلیا۔جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جمعرات تک وزارت داخلہ اور سول ایوی ایشن حکام رپورٹ جمع کرائیں، بتایا جائے کہ راؤ انوار بارڈر سے فرار تو نہیں ہوا۔
کراچی میں ماورائے قانون جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاکتوں پر کئی بار عوامی دبائو پر سرکاری کمیٹیاں بھی بنی ہیں لیکن آج تک ایسا نہیں ہوسکا کہ کسی پولیس افسر کو جعلی پولیس مقابلوں میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت سزا بھی سنائی گئی ہو۔ عموماََ یہی ہوتا رہا ہے کہ کوئی بھی پولیس افسر یا اہلکار کچھ قت کے لئے معطل ہوجاتا ہے ۔ تاہم بعد میں مدعیوں کے ساتھ تصفیہ یا دبائو ڈال کر اپنے خلاف انکوئری ختم کراکے دوبارہ بحال ہوجاتا ہے۔ اُس وقت تک واقعے سے متعلق عوام کا دھیان بھی دوسرے واقعے کی جانب مبذول ہوجاتا ہے اور مدعی بھی بالاآخر تھک ہار صبر کرلیتا ہے یا تصفیہ ۔ نقیب اللہ محسود کے علاوہ صرف دس دنوں کے اندر مزید دونوجوانوں کی مبینہ پولیس مقابلوں کی ہلاکت نے عوام کی محافظ پولیس فورس کے کردار پر کئی اہم سوالات کھڑے کردئیے ہیں۔ نقیب اللہ محسود کے علاوہ مزید ہلاکتوں کو بھی پولیس کی طرف سے ماورائے قانون قتل مانا جا رہا ہے ۔نقیب کے قتل کی تحقیقات کرنے والی تین رکنی اعلٰی سطحی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے بھی نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کو جعلی مقابلے میں کیا گیا قتل قرار دیے دیا ہے۔ یہ پولیس کی جانب سے پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا ہے کہ کسی بے گناہ شخص کو پولیس نے ماورائے قانون قتل کیا ہے۔باقی دو واقعات کی حتمی تفتیشی رپورٹ ہنوز باقی ہیں اور متاثرین شفاف تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
نقیب اللہ محسود کے علاوہ دوسرا واقعہ ملائشیا سے وطن لوٹنے والے نوجوان نتظارحسین کا تھا جسے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ قتل کے وقت انتظار کے ساتھ کار میں ایک لڑکی بھی موجود تھی جس کی وجہ سے انتظار کے کیس کو میڈیا کی توجہ ملی ۔کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے مرنے والے انتظار احمد کے والد اشتیاق احمد نے کراچی پولیس کی تفتیش پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے مقدمہ کاؤنٹر ٹیریرازم ڈیپارٹمنٹ یا کرائم برانچ منتقل کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر انتظار قتل کیس کی گھتی سلجھانے کے لئے سی ٹی ڈی نے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی جس پر جے آئی ٹی بنا دی گئی اور تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ اشتیاق احمد کے مطابق میڈیا پر شور مچانے پر انہیں پولیس نے واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے بیٹے کا قتل حادثہ نہیں بلکہ اینٹی کار لفٹنگ سیل کے سینیئر افسران سے مخاصمت کا نتیجہ ہے۔اشتیاق احمد کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی ہے ۔دوسری طرف متعلقہ پولیس افسر اور اہلکاروں کا موقف ہے کہ انتظار احمد کی ہلاکت کوئی سوچی سمجھی واردات نہیں تھی مگر اس کے باوجود متعلقہ تھانیدار سمیت آٹھ پولیس اہلکاروں کو قتل کے الزام میں اس واقعے کے 24 گھنٹے کے اندر ہی گرفتار کرلیا گیا تھا۔
تیسرا واقعہ شہر کی سب سے مصروف شاہراہ پر ہفتہ 20 جنوری کو صبح کے وقت پیش آیا جب کار سوار ملزمان کا تعاقب کرتی پولیس کی اندھی گولیوں کا شکار مخالف سمت سے آنے والے رکشہ سوار بن گئے۔ ایک رکشہ سوار زخمی ہوا جبکہ دوسرا مقصود نامی شخص جاں بحق ہوگیا۔ یہتیسرا افسوسناک واقعہ چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی اورمعذور باپ کا واحد سہارا مقصود کے ساتھ پیش آیا تھا جو شاہراہ فیصل پر ڈاکووئں اور پولیس کے درمیان مبینہ مقابلے میں گولیاں لگنے سے زندگی کی بازی ہار گیا جسے پولیس نے پہلے ڈاکو قرار دیا اور بعد میں کہا کہ مقصود کی موت ڈاکووئں کی فائرنگ سے ہوئی۔بد قسمت مقصود کی 20روز بعد شادی تھی ۔مقصود کی موت بھی عوام کے تحفظ پر مامور ادارے پر سوالیہ نشان ہے کہ وہ گولی کس کی تھی جو مقصود کی جان لے گئی ۔ مقصود کی ناگہانی موت بھی گھر والوں کو عمر بھر کا غم دے گئی۔ مقصود کی میت سرگودھا منتقل ہوئی اور پولیس نے اس واقعہ کو پولیس اور ملزمان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کا نتیجہ ظاہر کر کے قتل ملزمان کے سرتھوپ دیا تھا۔
اس وقت نقیب اللہ محسود قتل کیس کے حوالے سے سیاسی و عوامی سطح میں گرم جوشی پائی جاتی ہے ۔ نقیب اللہ محسود کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے والے پولیس افسررائو انوار کی ضلع ملیر میں تعیناتی کے 7 سال کے دوران 745 پولیس مقا بلے ہوئے۔ 192 پولیسمقابلوں میں 444 ملزمان کو ہلاک کیا گیا، جبکہ 553 کیسز میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ رائو انوار نے ملیر میں 7 سال کے دوران 891 ملزمان کو گرفتار کیا۔ جبکہ سال 2012 کے پہلے 10 ماہ میں سب سے زیادہ 195 مقابلے ہوئے۔رپورٹ کے مطابق جنوری سے اکتوبر 2012 میں ملیر میں پولیس مقابلوں میں سب سے زیادہ 183 ہلاکتیں ہوئیں اورسال 2012 میں اکتوبر تک 276 گرفتاریاں کی گئیں۔دوسری جانب جنوری 2018 میں 2 پولیس مقابلے ہوئے اور دونوں میں 8 افراد کو ہلاک کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ کراچی پولیس کے راؤ انوار طویل عرصے سے ایک ہی ضلع کی سربراہی کرنے والے رینکر پولیس افسر ہیں ۔راؤ انوار 1980 کی دہائی میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، بطور سب انسپکٹر ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے، اس عرصے میں وہ زیادہ تر گڈاپ تھانے پر تعینات رہے۔1992 کے کراچی آپریشن میںراؤ انوار بھی شامل تھے ۔ بتایا جاتا ہے کہ کراچی آپریشن کے دوران حصہ لینے والے 196پولیس افسران و اہلکاروں میںصرف دو پولیس افسر ہی زندہ بچے ہیں جن میں سرور کمانڈو اور رائو انوار شامل ہیں جبکہ 193پولیس اہلکاروں کو مختلف واقعات میں دہشت گردوں نے ہلاک کردیا تھا جبکہ ایک پولیس افسر نے بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کی ہوئی ہے۔ کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہلکاروں و افسران کے خلاف جب کراچی کی سرزمین تنگ کی گئی تو رائو انوار نے کچھ عرصہ دبئی میں گذارا بعد میں اس نے بلوچستان کو جوائن کیا۔2008 دوبارہ کراچی آیا اور اپنی معطلی سے قبلگذشتہ دس سالوں میں وہ زیادہ تر ایس پی ملیر کے عہدے پر ہی فائز رہا۔
ملیر ضلع کی حدود ساحل سمندر پر واقع مچھیروں کی بستی سے لے کر سپر ہائی وے پر موجود افغان بستی تک پھیلی ہوئی ہیں، معروفپراپرٹی بلڈر آئیکون کے کئی متعدد رہائشی منصوبے بھی اسی حدود میں زیر تعمیر ہیں۔ جن پر نیب میں بھی تحقیقات کیں جا رہی ہیں۔ جبکہ ریتی بجری بھی ملیر ندی سے غیر قانونی طور یہاں سے ہی نکالی جاتی ہے جو کروڑوں کا کاروبار ہے۔ ایک طویل ساحلی پٹی بھی اسی ضلع میںآتی ہے جہاں سمندمیں کچرا ڈال کر غیر قانونی جیٹیاں بنائی جاتی ہیں ، منشیات اور غیر قانونی انسانی اسمگلنگ کا بھی عرصے سے محفوظ مقام ہے۔ ان علاقوں میں زیادہ تر آبادی سندھی، بلوچ اور پختونوں کی ہے۔سپر ہائی وے پر بڑے تعمیراتی منصوبے کے بعد سہراب گوٹھ کے آس پاس میں مبینہ پولیس مقابلوں راؤ انوار کی قیادت میں درجنوں مبینہ پولیس مقابلے ہوئیتاہم اس مقابلوں میں پولیس کو کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا۔راؤ انوار نے 2016 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ 150 سے زائد مقابلہ کرچکے ہیں اگر انہیں ہٹایا نہیں گیا تو وہ اس میں اضافہ کریں گے، اپنے مقابلوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا پہلا مقابلہ ایم کیو ایم کے فہیم کمانڈو کے ساتھ ہوا تھا جس میں وہ مارا گیا۔ 2015 میں انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ پر بھارتی خفیہ ادارے را سے روابط رکھنے کا الزام عائد کیا، رائو انوار نے یہ الزامات دو ملزمان طاہر لمبا اور جنید کے بیانات کی بنیاد پر عائد کیے تھے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ایم کیو ایم پر پابندی عائد کی جائے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ان الزامات پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے راؤ انوار کو عہدے سے ہٹادیا تھا لیکن یہ معطلی عارضی رہی۔2016 میں راؤ انوار کو آخری بار اس وقت معطل کیا گیا تھا جب انھوں نے ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کیا تھا، جس پر موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے انہیں معطل کرنے کے احکامات جاری کیے تاہم رائو انوار دوبارہ اسی منصب پر بحال ہوگیا۔کراچی کے میئر وسیم اختر کو بھی راؤ انوار نے ہی گرفتار کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں، ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار انہیں پیپلز پارٹی کی قیادت کا خاص الخاص قرار دے چکے ہیں، جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق سینیٹر نہال ہاشمی نے بلدیاتی انتخابات میں الزام عائد کیا تھا کہ راؤ انوار نے ان کے لوگوں کو منحرف کرکے پیپلز پارٹی کے ضلعی چیئرمین کو ووٹ کرائے۔سیاسی رہنماؤں کے الزامات میں صداقت ہے یا نہیں یہ ثابت کرنا مشکل ہے۔
عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے کئی بار وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں، اس صورتحال میں وہ عدالت میں پیش ہوکر یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے لہٰذا انہیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ حال ہی میں مبینہ خود کش حملے میں رائو انوار پر دیگرحملوں کی کہانیوں کو بھی خود ساختہ قرار دیا جارہا ہے ۔ایک سابق ایس پی نیاز کھوسو نے راؤ انوار کے خلاف ناجائز طریقے سے اثاثے بنانے اور بیرون ملک ملکیت منتقل کرنے کے الزام میں درخواست دائر کر رکھی ہے، جس کی سماعت نوٹس تک ہی محدود رہی ہے۔
کراچی سمیت پاکستان کے کسی بھی علاقے میں ماورائے عدالت سزا کا تصور قانون نافذ کرنے والے اداروںکی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑا کردیتے ہیں ۔ کیونکہ جب کسی با اثر شخصیت کے خلاف ماورائے قانون کاروائی کرنے پر سست روئی برتے ہوئے سیاسی یا ریاستی سرپرستی کی جاتی ہے تو بعض عناصر براہ راست قانون نافذ کروالے معتبر اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کراچی میں امن کے قیام کیلئے رینجرز اور پولیس کی قربانیاں قابل تعریف و تحسین ہیں ۔ لیکن جب انتظار ، مقصود اور نقیب جیسے افسوس ناک واقعات منظر عام پر آتے ہیں تو عوام میں قانون پر سے اعتماد اٹھنے لگتا ہے ۔ مخصوص عناصر پروپیگنڈا کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کو مشکوک بنانے میں مصروف ہوجاتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کا موقع میسر آجاتا ہے ۔ رائو انوار اب کسی ایک فرد کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مفروضے کا نام ہے جس کا مقصد عوام کی نظرمیں نہایت منفی ہے ۔ ماضی میں جس طرح رائو انوار کے حوالے سے حقائق سامنے آئے ہیں اس کو بنیاد بناتے ہوئے عوام میں تحفظات پائے جاتے ہیں کہ کیا پولیس کے جعلی مقابلوں میں ہلاکت کے ذمے داروں کو واقعی عبرت ناک سزا مل سکتی ہے کہ پولیس میں موجودکالی بھیڑیں مخصوص مفادات کے لئے ماورائے عدالت سزا دینے کے خود ساختہ نظام کو اختیار کرنے سے باز آسکیں اور ملزم کو عدالت میں ٹھوس شواہد کے ساتھ پیش کریں تاکہ کسی قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر کوئی گناہگار ، بیگناہ نہ بن جائے۔ ایسے کئی عدالتی فیصلے آچکے ہیں کہ کئی سنگین جرائم میں ملوث ملزمان ٹھوس شواہد یا تفتیشی افسران کی کمزور تحقیقات کی وجہ سے باعزت بَری ہوجاتے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشنل اصلاحات کو ناگزیر قرار دیا ہے تو پولیس کے محکمے میں بھی تفتیشی نظام کو بہتر اور شفاف بنانے کے ساتھ ساتھ شواہد و گواہان کے مضبوط و محفوظ بنانے کیلئے اصلاحات اور اخلاص کی ضرورت ہے۔
نقیب اللہ محسود ، انتظار احمد اور مقصود کے ماورائے قانون ہلاکتوں میں با اثر افسران کا ملوث پائے جانا اچھی علامت نہیں ہے۔ ان جیسے سینکڑوں ایسے واقعات ہیں جس میں پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے کہ عوام کی محافظ ہی عوام کے قاتل کیوں بن جاتے ہیں؟۔ آج نقیب اللہ محسود قتل کیس کو لیکر جس طرح سپریم کورٹ ، اعلیٰ پولیس افسران سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں تو اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اثر رسوخ رکھنے والے افسران کے سرپرستوں کی جانب سے ان پر سخت دبائو بھی ہوگا ۔ لیکن اس دبائو کو کسی نہ کسی کو تو توڑنا ہی پڑے گا ۔ کسی نہ کسی کو آگے آنے ہی ہوگا ۔ اب جبکہ نقیب اللہ محسود کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان یکسانیت اور اتفاق رائے موجود ہے تو اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات نہ ہوسکیں ۔ اگر ایک بار پھر سیاسی دبائو حائل ہوگیا تو عوام اپنے فیصلے خود کرنے کیلئے قانون کا سہارا لینے کے بجائے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں۔ جو یقینی طور پر ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ایک سنگین و خطرناک صورتحال ہوگی۔خاص طور پرقبائلی عوام کے حوالے سے جو مخصوص مائنڈ سیٹ بنایا جارہا ہے اس قسم کے واقعات سے ملکی مفاد کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال رہے گا جس کا متحمل پاکستان نہیں ہو سکتا۔