کراچی (جیوڈیسک) نقیب اللہ قتل کیس میں انسداد دہشتگردی عدالت نے راؤ انوار سمیت 12 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر 2 مئی تک جیل بھیج دیا۔
کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت میں نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کیس کی سماعت ہوئی۔ پولیس نے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور اس کے قریبی ساتھی شکیل فیروز سمیت 12 گرفتار ملزمان کو سخت سیکورٹی میں عدالت میں پیش کیا۔
مقدمے کے تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد بھی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ملزم سے ابھی تفتیش مکمل نہیں ہوئی، اس کے لیے جےآئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کی سفارشات کے بعد ہی حتمی رپورٹ پیش کی جائے گی۔ عدالت نے راؤ انوار اور شکیل فیروز کو 2 مئی تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جب کہ باقی 10 ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کردی۔ کیس کی سماعت 2 مئی تک ملتوی کردی گئی۔
نقیب کیس کے دیگر گرفتار ملزمان میں ڈی ایس پی قمر احمد شیخ، کانسٹیبل عبدالعلی، شفیق احمد، غلام نازک، سب انسپکٹر یاسین، اے ایس آئی سپرد حسین، اللہ یار، ہیڈ کانسٹیبل اقبال، خضر حیات اور کانسٹیبل ارشد علی شامل ہیں۔ گزشتہ سماعت میں عدالت نے ملزم راؤ انوار کو 30 روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا جو مکمل ہونے پر آج انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ واضح رہے کہ نقیب اللہ قتل کیس میں 13 پولیس افسران اور اہلکار مفرور ہیں۔
13 جنوری 2018 کو کراچی کے ضلع ملیر میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 دہشتگردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ہلاک کئے گئے لوگ دہشتگرد نہیں بلکہ مختلف علاقوں سے اٹھائے گئے بے گناہ شہری تھے جنہیں ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کی شناخت نقیب اللہ کے نام سے ہوئی۔
سوشل میڈیا صارفین اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔ از خود نوٹس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور اسلام آباد ایئر پورٹ سے دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔