بڑے افسوس کی بات ہے کہ اِدھر مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر بھارتی مظالم اپنے پورے عروج پر ہے اوراُدھر مسلمانوں کے ملک متحدہ عرب امارات اوربحرین میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی آمد پر انہیں یواے ای کا اعلیٰ سول ایوارڈ”آرڈر آف زیاد ”دے دیا گیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب بھارت کی جانب سے آرٹیکل 35A اور370کی منسوخی کے بعد متنازعہ علاقے ”مقبوضہ کشمیر ”کی خصوصی حیثیت واہمیت ختم کردی گئی ہے اور گذشتہ 22روز سے وادی کشمیر میں مسلسل کرفیو اور زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔یو اے ای اور بحرین کی جانب سے مودی کو ایوارڈ سے نوازناایک اچھا عمل نہ ہے،اِس لیے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،حدیث پاک ہے کہ ”جب جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہوتو پورا بدن اُس درد کو محسوس کرتا ہے،”مسلمان کی مسلمان سے تعلق کی مثال یوں دی گئی ہے اور یہ کہ مسلمان مسلمان ہوتے ہوئے اپنے مسلمان بھائی کے درد میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔
اپنے مسلمان بھائی کی دل آزاری کے لیے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھاتا کہ جس سے دوسرے بھائی کو تکلیف پہنچے،چہ جائے کہ اُس کے دشمن پر ہی نوازشات کی بارش کردے،پھریہ کہ ایک ایسے وقت میں جب وہ اُس کے مسلمان بھائی کو مار یا شہید کررہا ہو،اُس پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہو،مسلم عورتوں کی عصمت دری میں ملوث پایا جاتا ہو،مسلمانوں کی بھارت اور کشمیر میںنسل کشی کروارہا ہو،اُن کی اچھی اور بہتر زندگی میں رکاوٹ بنا ،اُن کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہو،۔مانا کہ دونوں ملکوں کے قریبی اور بہتر تعلقات ہیںاور اقتصادی طور پر یہ دونوں ملک ایک دوسرے کی معیشت کی بحالی میں بڑے اہم ہیں،لیکن ہندوستان سے یہ دوستی ایسی نہیں ہونی چاہئیے کہ اِسے نبھاتے آپ دردِ مسلم کو ہی بھول جائیں،حق و باطل میں فرق ہی نہ سمجھ پائیں،سچ اور جھوٹ کی تمیز نہ کر سکیں۔
حقیقی دوست اور دشمن کی پہچان سے ہی قاصر ہوجائیں،دونوں ملکوں کی غرضانہ دوستی اپنی جگہ مگر اِس دوستی کی بنیاد مسلم دوستی پر رکھنی چائیے نہ کہ مسلم دشمنی پر۔ایک ایسے شخص کو ریاستی پروٹوکول اور ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دینا، جو آپ کے مسلمان بھائیوں کی نسل کشی میں ملوث پایا جاتا ہو،انہیںمار اور شہید کررہا ہو ،کودینا کہاں کی دانشمندی ہے؟یو اے ای کے بھارتی فورسز کی جانب سے کشمیر یوںپر ڈھائے جانے والے مظالم دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں موند لینے ،کی پروا نہ کرنے اورسفاک قاتل مودی کو ایوارڈ دینے اور یواے ای کے الشیخ محمد بن النہیان کی جانب سے مودی کو کہنا کہ ”میرے بھائی ،اپنے دوسرے گھر آنے کاشکریہ”پر اتنا ہی کہوں گا کہ ”باپ بڑا ،نہ بھیا،سب سے بڑا روپیہ”۔یو اے ای اور بھارت کے مابین تعلقات کی موجود لہرپہلے کبھی نہیں دیکھی تھی،اِس گہرے تعلقات کی وجہ کیا ہے؟اِس سے پردہ اٹھاکر میں خطے میں مزید کسی نئے ”بھنڈورابکس”کو کھولنے کا متحمل ہرگز نہیں ہوسکتا”تاہم اتنا ضرور کہوں کا کہ یواے ای اور بحرین نے انسانی حقوق کو اپنے اقتصادی فوائد کے لیے قربان کردیا ہے،جوکہ ایسا نہیں کرنا چاہئیے تھا۔
یو اے ای کے ولی عہد الشیخ محمد بن النہیان کو چاہیئے تھا کہ بحثیت اسلامی ملک کشمیر میں بہتے خونِ مسلم کا احساس وادراک کرتے،کشمیر میں جاری بھارتی ظلم وستم کے پس منظر میں مودی کو یوارڈ دینے کے متعلق اپنے فیصلے پر غور کریں اور ایوارڈ احتجاجا واپس لیں اوربحثیت اسلامی ملک ،ایک بڑے اسلامی لیڈر کاکردار ادا کرتے بھارتی مظالم کی کھل کر مذمت کریں،اوربھارتی حکومت پر کشمیر میں مظالم روکنے اور کشمیریوں کی نسل کشی سے باز رہنے پر زور دیں،یہ موجودہ حالات کا تقاضا بھی ہے اور بحثیت اسلامی ملک کے بطور سربراہ اُن کا فرض بھی کہ اپنے مسلمان کشمیری بھائیوں کے لیے تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہوکر اُن کے لیے آواز اٹھائیں،بھارت سے تجارت اپنی جگہ مگر تعلق مسلم کتنا مستحکم ،باور کروائیں۔
مودی کو دیا جانے والا اعلیٰ سول ایوارڈاُن سے واپس لے کرانہیں خونِ مسلم میں کتنا جوش ،بتا دیں اور یہ اِس لیے بھی ضروری ہے کہ کشمیریوں کی اکثریت کے وہی عقائد ہیں،جو آپ کے ہیں،بطور انسان ہماری ذمہ داری ہے کہ انسانی حقوق کے لیے اور بھارتی شیطانیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہو،اب مزید دیر بہت دیر کر دے گی،دشمن غضب کی چال چل چکا،بدقسمتی سے جس کا شکار ہم جانے انجانے میں ہورہے ہیں،ہمیں دشمن کی چالوں کو سمجھتے ہوئے تعلق مسلم میں اپنے وسیع تر مفادات میں فیصلے لینے ہونگے،ورنہ ایک اسلامی ملک کے بعد یکے بعد دیگرے اسلامی ممالک ،چھوٹی موٹی مسلم ر یاستیں بھیڑیا نما درندوں کی بھینٹ چڑھتی تہہ وبالا ہوتی رہے گی،اور اِس کو ابھی سے نہ روکا تو پھر ہم بکھرے ہوئوں کو بچانے کوئی نہیں آئے گا۔
A R Tariq
تحریر : اے آر طارق artariq2018@gmail.com 03074450515