تحریر : ڈاکٹر سید احمد قادری زیادہ عرصہ نہیں ہوئے، اب سے صرف تیس سال قبل یعنی 1984 ء کے لوک سبھا انتخاب میں صرف دو سیٹ، ایک آندھرا پردیش اور دوسری سیٹ گجرات سے حاصل کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی، ان دنوں نہ صرف لوک سبھا ، بلکہ مختلف ریاستوں میں مسلسل کامیابی کی طرف گامزن ہے۔ ابھی حالیہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے پنجاب کو چھوڑ کر چاروں ریاستوں میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس شاندار کامیابی کے بعد مہاراشٹر کے بلدیاتی انتخابات میں اور پھر ابھی دہلی کی تینوں میونسپل کارپوریشنوں میںجس طرح سے بھارتیہ جنتا پارٹی پئے در پئے کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہے، اس سے نہ صرف نریندر مودی اور امت شاہ کا بلکہ راشٹریہ سویم سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا حوصلہ بڑھنا بالکل فطری ہے۔ اس بڑھتے حوصلے سے ان جماعتوں کے کارکنان بھی پورے جوش وخروش میں ہیں اور طرح طرح سے اپنے جوش وخروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اتر پردیش ،گورکھ پور کی گورکھ ناتھ مندرکے مہنت یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ یہاں کا پورا قانونی نظام ہی بدل کر کسی اور کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے ، اس حد تک کہ بارہ بنکی لوک سبھا کی ممبر پرینکا سنگھ نے بارہ بنکی کے ایڈشنل پولیس سپر نٹنڈنٹ کے جسم سے کھال اتروانے کی دھمکی دینے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس کر رہی ہیں۔ بھاجپا کے کارکنان اور یوگی کے ہندو واہنی سر بازار بے قصور لوگوں کی پٹائی کر رہے ہیں اور پولس کھڑی تماش بین بنی ہوئی ہے ۔پہلو کان کی موت سے ابھی لوگوں کے آنسو تھمے بھی نہیں تھے کہ بلند شہر کے 62 سالہ بزرگ غلام محمد کو زد وکوب کر بڑی بے رحمی اور بربریت کے ساتھ پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا۔ قاتلوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ، لیکن جگہ جگہ پوسٹر چپکا کر جس اس کارنامے پر پیٹھ تھپ تھپائی جا رہی ہے، وہ اس بات کا مظہر ہے کہ اس ظلم و بربریت پر قاتلوں کو کو ئی افسوس نہیں، بلکہ اس پر انھیں حکومت وقت کی جانب سے بڑا اعزاز وانعام کی توقع ہے۔ کاش کی پہلو خان کی بے دردی سے کئے جانے قتل پر اگر بازپرس کی جاتی ، تو شائد اسی ریاست میں غلام محمد کا قتل نہ ہوتا۔اب تو مسلمانوں کے ساتھ دلت بھی نشانے پر ہیں ۔ ان کے گھر جلائے جا رہے ہیں ، انھیں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ ان کے کنویں میں کیروسن تیل ملایا جا رہا ہے ۔ یہ سب کیوں اور کس لئے ہو رہا ہے ، یہ سوال اٹھ رہا ہے ، جس کا بہت ہی واضح جواب یہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہندو یوا واہنی قائم کر کے جو کارنامے انجام دئے ہیںاس کا صلہ تو انھیں ملنا ہی چاہئے تھا ۔ اب انھیں اپنی پوری ٹیم کے ساتھ مل کر اپنے ‘ہندوتو’ ایجینڈے کو نافذ کرنا ہے۔ حزب مخالف بھی خاموش تماشائی کا بہتر رول ادا کر رہا ہے ،کہ ا ن میں اب وہ دم خم نہیں رہا ۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں مودی جی کی شاندار کامیابی پر خوب ڈنکے بج رہے ہیں ، بجنا بھی چاہئے۔ ایسی بے مثال کامیابی انھیں ملک کے مختلف حصوں میں ملی ہے کہ خوشی میںجتنا بھی ڈنکا بجایا جائے اور سنکھ پھونکا جائے ، کم ہے۔ یہ کامیابی کیوں اور کیسے ملی۔ اس کی بحث اب فضول ہے۔ وجہ جو بھی رہی ہو، کامیابی مودی اور شاہ کی بہرحال ہوئی ہے۔جو جیتا وہی سکندر، اور سکندر کی حیثیت سے مودی کا اگر لوک سبھا میں خیر مقدم ‘جئے شری رام’ اور راجیہ سبھا میں ‘شیر آیا’ کے نعروں سے کیا گیاہے ۔تو غلط اس لئے نہیں ہے کہ اس شیر کو رام نے تو ہی شہرت اور کامیابی سے ہمکنار کیا ہے ۔
مختلف انتخاب میں مودی ،شاہ ، بھارتیہ جنتا پارٹی یا راشٹریہ سویم سنگھ کو جس طرح کی کامیابی ملی ہے ۔اس پس منظر میں جو منظر نامہ ملک کا سامنے آیا ہے،وہ یہ ہے کہ اب اس ملک کے لئے غربت، بے روزگاری،مہنگائی، صحت، تعلیم، تحفظ،رواداری،کرپشن،ذخیرہ اندوزی،اظہار آزادی،صنعتی و تجارتی انجماد،اقتصادی مساوات،سماجی استحصال، جمہوری قدروں کی پامالی، آئین کی بے وقعتی وغیرہ جیسے مسئلے ، اب مسئلے نہیں رہ گئے ۔ یہ سب کے سب اب حاشیہ پر چلے گئے ہیں۔اب اگر ملک کے لئے سب اہم مسئلہ ہے ، تو یہ ہے کہ پورے ملک میں ‘ہندوتو’ ایجنڈہ کیسے نافذ ہو اور ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب اور شاندار روایات کو روندتے ہوئے’ ہندو راشٹر’ کیسے بنایا جائے۔
لیکن میرے خیال میں مشکل یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم مودی جی بیرون ممالک کی آئے دن سیر کرتے رہتے ہیں اور وہ جہاں جاتے ہیں وہاں کے لوگ اور حکومت، مودی جی کے ملک بھارت کے عوام کی خوشحالی، ان کی تعلیم و صحت کی سہولیات،اظہار آزادی اور جمہوری قدروں کی اہمیت اور آئین کے تئیں روئے پر سوالات کئے جاتے ہیں ۔ جن کے جواب میں عام طور پر ہمارے وزیر اعظم مودی جی حزب اختلاف کو ذمّہ دار قرار دیتے رہے ہیں کہ قبل کی حکومت نے ان مسائل پر کبھی توجہ ہی نہیں دیا ۔ لیکن اب تو لوک سبھا میں بھاری اکثریت ہے ہی ہے ، راجیہ سبھا میں بھی اب ہو جائیگی ، اب صدر و نائب صدر بھی ان ہی کی پارٹی کے ہونگے۔ اب ایسے سوالات کا جواب دینا ان کے لئے بڑا مشکل ہو جائیگا کہ آپ کی حکومت نے اتنے دنوں میں اپنے ملک کے عوام کے بنیادی مسائل کیوں نہیں حل کئے۔ ملک کے کسان مسلسل خودکشی کر رہے ہیں ، خودکشی سے قبل مستقل احتجاج کر رہے ہیں ، ننگے بدن ہو کر مظاہرے کر رہے ہیں ، احتجاج میں پیشاب پی رہے ہیں۔ حکومت کی نااہلی ، لاپرواہی اور خفیہ شعبہ کی بے اعتنائی کے باعث صرف ڈیڑھ سال کی مدت میں صرف سکما (چھتیس گڑھ) میں نکسلی حملے میں 123 فوجی جوان مارے گئے ہیں ، پاکستان کی سرحد پر مسلسل ہمارے نوجوان شہید کئے جا رہے ہیں ، ان کے سر تن سے جدا کر حیوانیت کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور اب تک کوئی ٹھوس کاروائی نہ ہونے کے سبب ۔ پڑوسی ملک اور نکسلیوں کی ہمت اور حوصلے دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ صرف بیان بازی اور مذمت اس اہم مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ کشمیر میں جس طرح ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کر احتجاج کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، اب تو انتہا یہ ہو گئی کہ کہ اتر پردیش کیا مختلف ریاستوں سے کشمیر میں امن وشانتی کے لئے۔ وہاں امن کے پیامبروں کو بھیجا جاتا ،لیکن افسوس کہ کشمیر میں طلم و زیادتی کے لئے کانپور سے ایک ہندو تنظیم جن سینا کے بینر تلے تقریباََ ایک ہزار سادھو، سنتوں کی فوج ایک ٹرک بھر کر اینٹ پتھر لے جانے کی اطلاع ملی ہے ، جو وہاں کے پتھر بازوں کو ان ہی زبان میں جواب دینگے ۔ اب زرا غور کیجئے کہ سادھو، سنت ، جو کبھی امن وسلامتی کے پیامبر ہوا کرتے تھے ، وہ اب کسی کی منشأ پر کشمیر جا کر پتھر چلائینگے۔حقیقت یہ ہے کہ ایسی منفی سوچ اور کوششوں سے مسئلہ مذید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ان سارے بہت اہم مسئلوں سے رو گردانی سے مسئلہ کم نہیں ہو رہا ہے ، بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور ہوگا۔
مشکل یہ بھی ہے کہ بڑی فیاضی کے ساتھ یہ حکومت سرکاری شعبوں کو فروغ دینے کی بجائے دوسرے نجی شعبوں کو فروغ دینے میں منہمک ہے۔مثلاََ ریلوے کو ڈیژل مہیا کرانے والی سرکاری کمپنی انڈین اوائل اور بھارت پیٹرولیم کی بجائے یہ ٹھیکہ ریلائنس کو دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومت کے شعبہ مواصلات کی بجائے ریلائنس کے ‘جیو’ کو فروغ دیا گی ۔ نوٹ بندی کے زمانے ‘پے ٹی ایم’ کی تشہیر پر زیادہ توجہ دی گئی۔ ایسی کوششوں اور عنایات کی ایک لمبی فہرست ہے، جو آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں۔ اس عمل سے سرکاری شعبوں کو جو مالی طور پر بھاری نقصان پہنچ رہا ہے اور نجی کمپنیوں کی جس طرح تجوریاں بھری جا رہی ہیں ،اس سے ملک کے خزانہ پر زبردست منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جن کی بھرپائی ظاہر ہے کہ مختلف ٹیکس کی شکل میں ملک کے غریب عوام سے ہی وصولا جا رہا ہے اور وصولا جائے گا ۔ اس سلسلے میں جب یہ ہنگامہ ہوا کہ یہ حکومت، اڈانی اور امبانی وغیرہ کی جانب داری کے ساتھ انھیں مالی منعفت پہنچا رہی ہے ، تو اس کے جواب میں پارلیامانی امور کے وزیر وینکیا نائڈو نے جو جواب دیا ، وہ یہ کہ’ یہ لوگ قبل سے ہی دولت مند ہیں۔
بڑھتی مہنگائی ، غربت اور بے روزگاری کا ہی یہ نتیجہ سامنے آ رہا ہے کہ کرپشن سرکاری محکموں میں اُپر سے نیچے تک ناقابل یقین حد تک داخل ہو چکا ہے ۔ یوں تو اس حکومت کے زیر سایہ کرپشن کی فہرست کافی لمبی ہے ، لیکن میں صرف ایک کرپشن ‘ ویاپم ‘ کا ہی ذکر کروں ، تو بھی کام چل جائگا کہ اس کرپشن نے گزشتہ کئی دہائیوں کی بدعنوانیوں کے ریکارڈ توڑ دئے ہیں ، رہی سہی کسر منی پور اور گوا میں پورا کر دیا گیا، جہاں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کے الزام کے مطابق ہزار کروڑ سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ اب ایسی حکومت کس مُنھ سے کرپشن دور کرنے کی بات کرے گی۔ رشوت خوری کا اس طر ح بازار گرم ہے کہ ایشیائی ممالک میں بڑھتی بد عنوانیوں پر سروے کرنے والی ایک تنظیم ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق رشوت خوری کے معاملے میں بھارت کافی اُنچی پائدان پر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 69 فی صد بھارتیوں کو اپنے کام کے لئے رشوت دینا پڑتی ہے۔ ٹرانس پیرنسی کے چئیرمین جوس اگاز نے اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو کرپشن مخالف قانون کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کروڑوں لوگ رشوت دینے پر مجبور ہوتے ہیں اور اس کا منفی اثر غریبوں پر پڑتا ہے۔
بھارت کی معیشت کو بار بار ترقی کی راہ پر بتایا جا رہا ہے اور ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ان کے سامنے غلط طور جی ڈی پی کو پیش کیا جا رہا ہے ۔ جوان معاملے کے ماہرین کے سامنے مذاق ما موضوع بن رہا ہے۔ ‘ دی اکنامسٹ ‘ان جھوٹے اور من گڑھنت ترقی کے اعداد وشمار کو پوری طرح خارج کرتے ہوئے بتا رہا ہے کہ ملک کے بینکوں اور تجارتی اداروں کے نتائج بالکل اس کے برعکس ہیں۔ملک کے 70 فی صد بینک سرکاری تحویل میںہیںاور ان بینکوں نے حکومت کی سفارش پر بڑے صنعتی و تجارتی کمپنیوں کو اب تک سات لاکھ کروڑ روپئے قرض دے رکھے ہیں ۔ وجئے مالیا چونکہ ملک کی معیشت کو چونا لگا کر فرار ہو گیا ہے ، اس لئے اس کے قرض کی تفصیل عوام کے سامنے آ گئی، ورنہ نہ جانے ایسے کتنے صنعت کار اور تاجر ہیں ، جو ملک میں بیٹھ کر بینکوں کو چونا لگا رہے ہیں۔ جس کا خمیازہ ملک کے عوام بھگت رہے ہیں ، جو بینکوں کے ذریعہ آئے دن سروس ٹیکس کے طور دینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
ان چند مثالوں کے بعد اب یہ دیکھا جائے کہ ان سب حالات کے اثرات سے ہمارے ملک کے عوام کس قدر خوش اور خوشحال ہیں، تو اس سلسلے میں بھی عالمی سطح پر برطانیہ کے لیگا ٹم انسٹی چیوٹ کی دسویں سالانہ رپورٹ کو دیکھنے کے بعد بڑی مایوسی ہوتی ہے کہ 149 ملکوں کی مالی حیثیت ، فی کس آمدنی، کام کرنے والے افراد کی تعداد شرح وغیرہ جیسے104 نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں 9 حصوں میں منقسم کیا گیا ہے ۔ جن میں اقتصادی مساوات، کاروباری ماحول، طرز حکومت، صحت، تعلیم، تحفظ،ذاتی آزادی اور قدرتی ماحول وغیرہ میں جہاں نیوزی لینڈ سر فہرست ہے ، وہیں ہمارا ملک بھارت 104 ویں مقام پر کھڑا اپنی کسمپرسی پر آنسو بہا رہا ہے۔
اب ایسی صورت حال میں ہمارے ملک کے وزیر اعظم اور دوسرے ‘ ذمّہ دار ‘ وزرأ ملک کے عوام کے سامنے ملک کی جس طرح کی تصویر پیش کر رہے ہیں ، وہ زمینی حقائق سے کوسوں دور ہے۔ میں یہ بات مانتا ہوں کہ موجودہ حکومت کو پارلیامنٹ اور بیشتر ریاستوں میں بھاری اکثریت حاصل ہے اور وہ اپنے ‘ہندوتو’ ایجنڈے پر کافی تیزی سے آگے بھی بڑھ رہی ہے۔ لیکن خوف اس بات کا ہے کہ بھارت کے عوام جب کبھی مڑ کر ‘ہندوتو’ ایجینڈے کے ساتھ ساتھ اپنی غربت، بے روزگاری، صحت، تعلیم، سماجی استحصال، اقتصادی مساوات اور آزادیٔ اظہار پر نظر ڈالینگے، تو پھر کیا ہوگا ؟ اس لئے کہ ایسی ہی بھاری اکثریت سے نوازنے والی عوام، اب سے تیس سال قبل کانگریس کو پارلیامنٹ میں 414 اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو 2 سیٹوں تک پہنچا چکی ہے ۔ لیکن کانگریس کی نااہلی اور عوام کی بنیادی ضرورتوں سے چشم پوشی نے اسے کہاں پہنچا یا ، یہ بھی اب سامنے ہی ہے۔’ ہندوتو ‘ کا نظریہ اور فرقہ واریت کے جنون سے عوام کو تھوڑے دنوں تک ضرور ورغلایا اور بہلایاجا سکتا ہے، لیکن بہت دنوں تک نہیں۔ اس لئے کہ یہ نظریہ او ر یہ جنون بنیادی ضرورتیں پورا نہیں کرتے ہیں ۔ اس لئے توقع ہے کہ تاریخ کی اس حقیقت کو وقت رہتے موجودہ حکومت ضرور سمجھنے کی کوشش کرے گی، او ر وہ ملک کے غریبوں، مزدوروں، کسانوں کے بنیادی مسائل پر بھی توجہ دے گی ۔ اس لئے کہ یہاں کے عوام بہت سارے فروعی معاملے کی بجائے اپنے بنیادی مسائل کو ترجیح دیتے ہیں اور وہ اپنے مسائل سے حکومت وقت کی چشم پوشی پر کب سراپا احتجاج بن جائینگے ، نہیں کہا جا سکتا ہے۔