بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی کی حکومت کے قیام اور سخت گیرہندو انتہا پسند لیڈر نریندر مودی کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے پر مختلف سیاسی تنظیموں کی جانب سے دبے لفظوں میں اسرائیل پر الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ انہیں برسراقتدار لانے میں اسرائیلی حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی موساد ملوث ہے۔ بھارت اور اسرائیل چونکہ دونوں فطری اتحادی ملک ہیں اور انڈیا کی کوئی بھی سیاسی جماعت اسرائیل سے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتی اس لئے اس حوالہ سے زیادہ شور تو نہیں مچا البتہ مختلف فورمز پر ان باتوں کا اظہار کئے جانے پر اسرائیل کو بہرحال اس بات کی وضاحت کرنا پڑی کہ نریندر مودی کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔
اسرائیلی سفیر ایلون اشیزا کی جانب سے اس بات کی تردید تو کر دی گئی ہے کہ ان کی خفیہ ایجنسی موساد نے کانگریس کو شکست دینے کیلئے آر ایس ایس کے ساتھ مل کر ایسی کوئی سازش نہیں کی جس سے بی جے پی کولوک سبھا کے الیکشن میں بڑی کامیابی مل سکے مگر جس طرح مودی کی غیر معمولی انداز میں انتخابی مہم چلائی گئی، عالمی میڈیا میں انہیں ملنے والے رسپانس ،انتہائی زور دار سوشل میڈیا مہم اور جس طرح وقت سے پہلے ہی سروے رپورٹیں شائع کرکے مودی کی جیت کا ماحول بنایا گیااس سے بہرحال دال میں کچھ کالا ضرور دکھائی دیتا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ افغانستان میں عبداللہ عبداللہ اور بھارت میں نریندرمودی کی حکومتیں بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت عمل میں لائی گئی ہیں تاکہ پاکستان کے لئے مشرق و مغرب سے مشکلات کھڑی کی جاسکیں’ تو غلط نہیں ہو گا۔نریندر مودی کی حکومت بنے ابھی چند دن گزرے ہیں کہ بھارتی سرکار کی طرف سے پاکستان اور چین کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیکر کنٹرول لائن پر مزید فوجیں لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیںتو دوسری طرف انٹیلی جنس بیورو سمیت تمام خفیہ ایجنسیوں میں اگر کسی جگہ کوئی مسلم آفیسر موجود بھی ہے تو اسے کھڈے لائن لگا کر ہندو انتہا پسندانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کو لاکر بٹھایا جا رہا ہے۔
حال ہی میں قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے اجیت ڈوول ، سابق آرمی چیف جنرل (ر) وی کے سنگھ کوشمال مشرقی ریاستوں کا وفاقی وزیراور این مشرا کو وزیر اعظم کا پرنسپل سیکرٹری مقرر کیا گیا ہے۔سابق آئی بی سربراہ اجیت ڈوول جو ماضی میں آر ایس ایس کے ایک ونگ کے سربراہ رہے ہیں اور جنہیں اب قومی سلامتی کا مشیر مقررکیا گیا ہے وہ بھارت کی تاریخ کے اہم ترین جاسوسی اور انسداد دہشت گردی کے مشن میں شامل رہے ہیں۔وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتے رہے، مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کو نقصان پہنچانے کیلئے کوکہ پرے کو تیار کیا، انہیں وسائل مہیا کئے اور کشمیری مجاہدین کے کمانڈروں کے قتل کی خوفناک سازشیں کیں۔ اسی طرح 1980ء کی دہائی میں وہ چھپ کر گولڈن ٹیمپل کے اندر جا پہنچے اور سکھوں کے خلاف فوجی کاروائی کرتے ہوئے ان کاقتل عام کیا اور پھر انہیں وہاں سے نکال باہر کیا گیا۔ اجیت ڈوول نے قندھار میں بھارتی طیارہ کے اغواء کاروں سے مذاکرات کئے اور شورش زدہ ریاست میزورام میں علیحدگی پسند تنظیم میزو نیشنل آرمی سے امن معاہدہ کروایا۔2001ء میں پرویز مشرف اور واجپائی کے درمیان آگرہ مذاکرات کی فضاخراب کرنے کی ذمہ داری بھی انہی پر ڈالی گئی تھی۔وہ پہلے ایسے آئی بی افسر تھے جنہیں کیرتی چکر کابھارتی سرکاری ایوارڈ دیا گیا۔
وہ چھ سال تک پاکستان میں بھی رہے۔ بھارت میں ان کی پہچان ایک سخت گیر پاکستان مخالف آفیسراور منصوبہ ساز کی ہے۔جہاں تک سابق بھارتی آرمی چیف جنرل (ر) وی کے سنگھ کی بات ہے تو ان کے حوالہ سے بھی یہ حقائق منظر عام پر آچکے ہیں کہ ممبئی حملوںکے بعد انہوں نے پاکستان میں خفیہ کاروائیوںکیلئے خفیہ انٹیلی جنس یونٹ قائم کیا تھا جس نے جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کو نقصان پہنچانے کیلئے سرحد پار رابطے بڑھائے اور نیٹ ورک قائم کرنے کی کوششیں کیںتاہم وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جنرل (ر) وی کے سنگھ کے قائم کردہ آرمی یونٹ، ٹیکنیکل سروسز ڈویژن یا ٹی ایس ڈی نے پاکستان میں کئی خفیہ آپریشن کئے۔ اس یونٹ کے قیام کی منظوری بھارتی ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس ، چیف آف آرمی سٹاف اور وائس چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے دی گئی تھی۔یہ یونٹ براہ راست آرمی چیف وی کے سنگھ کو رپورٹ کرتا تھا۔ہندوستان ٹائمز کے رپورٹر ہریندر باجوہ کے مطابق اس یونٹ نے شمال مغربی بھارت میں آپریشن سیون سسٹرز، کشمیر میں آپریشن رہبر اور پاکستان میں آپریشن ڈیپ سی کے نام سے پاکستان میں کئی خفیہ آپریشن کیے ۔اس یونٹ کی جانب سے بھارتی افواج کے موجودہ سربراہ، جنرل بکرم سنگھ کی بطور آرمی چیف تقرری رکوانے کے لیے کوششیں کی جاتی رہیں تاہم بعد میں اس یونٹ نے اپنی حدودوقیود سے باہر نکل کر بھارتی وزارتِ دفاع کے اعلیٰ افسران کی بھی جاسوسی شروع کر دی جس پر اس سپیشل یونٹ ٹی ایس ڈی کو ختم کرنے کے احکامات جاری کئے مگر بعد میں بھی یہ یونٹ کافی عرصہ تک بھارتی حکام کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ آپریشن سرانجام دیتا رہااور پھربالآخروزارت دفا ع کے دبائو پر اسے بند کر دیا گیا۔ہم سمجھتے ہیں کہ نریندرمودی کی جانب سے جنرل (ر) وی کے سنگھ اور اجیت ڈوول کی تعیناتی پاکستان اور چین دونوں کے خلاف زبردست جارحانہ عزائم کا اظہاراور ایک واضح پیغام ہے کہ وہ مستقبل میں پاکستان اور چین کے ساتھ سخت رویہ اپنا سکتے ہیں۔ یہ دونوں افسران براہ راست بھارتی وزیر اعظم کو جوابدہ ہوں گے اور ان کی نگرانی میں کام کریں گے۔
بھارتی فوج، انٹیلی جنس بیورو اور پولیس میں آر ایس ایس کی ہندو انتہا پسندانہ ذہنیت کے حامل افسران کی بہت بڑی تعداد موجود ہے یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی بھارت کے کسی کونے میں مسلم کش فسادات ہوتے ہیں ہندو انتہا پسندوں کی طرح پولیس او ر خفیہ ایجنسیوں میں موجود بھگوا دہشت گردوں کی طرف سے بھی عام مسلمانوں کو سخت نقصانات سے دوچار کیاجاتا ہے اور ہندو انتہا پسندوں کو گرفتار کرنے کی بجائے ان کی مکمل سرپرستی کی جاتی ہے۔ اب جبکہ بی جے پی کی حکومت آتے ہی جنرل (ر) وی کے سنگھ کے ہمراہ ریٹائرڈ فوجیوں کی بڑی تعداد، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس سے ریٹائرڈ ہونے والوں کی کثیر تعدادنے بی جے پی میں شمولیت اختیارکر لی ہے اورمسلمانوں کے خلاف دھمکی آمیز انداز اختیار کیا جارہا ہے بھارتی مسلمانوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے اوروہ شدید عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہندو انتہا پسندتنظیم بی جے پی کے سابق فوجیوں اور انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں کا گڑھ بننے سے نہ جانے ان کے خلاف کیا کیا اقدامات اٹھائیں جائیں گے۔ دوسری طرف اجیت ڈوول اور جنرل (ر) وی کے سنگھ کے مودی کی کابینہ میں شامل ہونے سے پاکستان میں بھی پراکسی وار مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ بھارتی فوج کا ٹیکنیکل سروسز یونٹ جسے پاکستان میں خفیہ آپریشنز کیلئے بنایا گیا تھا بی جے پی کی حکومت آتے ہی اسے دوبارہ فعال کیاجاسکتا ہے۔ افغانستان سے جوں جوں امریکہ کی واپسی ہو رہی ہے وہ اپنی جگہ بھارتی فوج کو وہاں بھرپور کردار سونپنا چاہتا ہے۔
Nawaz Sharif
یہ رپورٹیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں کہ 25ہزار بھارتی فوجی افغانستان پہنچ چکے ہیں اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔بہرحال یہ باتیں ان کیمرہ اجلاسوں میں بھی تسلیم کی جاچکی ہیں کہ بھارت کے افغانستان میں موجود قونصل خانے دہشت گردی کے اڈے بن چکے ہیں اور پچھلے کئی برسوں سے یہاں دہشت گردوں کو تربیت دیکر پاکستان بھیجاجارہا ہے جو بلوچستان، سندھ، خیبر پی کے اور ملک کے دیگر حصوں میں تخریب کاری و دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور علیحدگی کی تحریکیں پروان چڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں افغانستان سے پاکستانی فوجی چیک پوسٹوں پر حملوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت سرکار کی سازشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دے۔وزیر اعظم نواز شریف مودی سے دوستانہ تعلقات پروان چڑھا کر یقینا معاملات کو سلجھانا چاہتے ہوں گے مگرانہیں بھارت سرکار کا ماضی اور مودی کے دہشت گردانہ کردار کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ابھی مودی کی حکومت بنے چنددن ہوئے ہیں کہ ان کے مطالبات میں شدت بڑھتی جارہی ہے۔ چنددن کی سیکرٹری خارجہ بھی کہتی ہے کہ بموں کی آوازوں کے درمیان پاکستان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔یہ لب و لہجہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ آپ کی دوستی کے جواب میں آنے والے دنوں میں دہشت گردی کی آگ مزید بھڑکائیں گے۔
بھارت سرکار کی جانب سے بار بار ممبئی حملوں کے حوالہ سے بھی الزامات لگائے جارہے ہیں۔قوم سوال کرتی ہے کہ جب پاکستان کی عدالتیں واضح طور پر قرار دے چکی ہیں کہ پاکستان کا کوئی ادارہ یا یہاں کی کوئی مذہبی جماعت ان حملوں میں ملوث نہیں ہے تو پھر جب بھی ان حملوں کا ذکر آتا ہے تو حکمرانوں کی زبانیں کیوں گنگ ہوجاتی ہیں؟۔
India
وہ بھارت سے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس، بلوچستان میں دہشت گردی اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا مسئلہ کیوں نہیں اٹھاتے؟ہم سمجھتے ہیں کہ ممبئی حملوں کے مبینہ ملزمان کو فی الفور رہا کرنے اور مسئلہ کشمیر، پاکستان کے پانیوں کا رخ موڑنے، بابری مسجد اور مظلوم بھارتی و کشمیری مسلمانوں کا مسئلہ بھرپور انداز میں اٹھانے کی ضرورت ہے۔ آپ ایسا کریں گے تو پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہو گی وگرنہ یہ بات ذہن نشیں رکھیں کہ قو م کی امنگوں کے برعکس پالیسیاں ترتیب دینے سے پاکستان کو درپیش مسائل کسی صور ت حل نہیں ہوں گے۔