تحریر : محمد اشفاق راجا بھارت کے خفیہ ادارے ”را” کے سابق سربراہ اجیت سنگھ دلت نے کہا ہے کہ میں اس بات پر حیران ہوں کہ کشمیریوں کے ساتھ بات چیت کا عمل کیوں شروع نہیں کیا جاتا، وزیر اعظم مودی کی حکومت بی جے پی کی سابق واجپائی حکومت سے زیادہ طاقت ور ہونے کے باوجود مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہی، ان کا کہنا ہے کہ مودی کے آنے سے کشمیریوں میں ایک احساسِ خوشی پیدا ہوا تھا کہ وہ واجپائی کے مشن کو آگے بڑھائیں گے لیکن ان کا کام محض زبانی جمع خرچ تک ہی محدود رہا ہے۔ کشمیر پر کشمیریوں سے بات چیت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے پاکستان کے ساتھ بھی مذاکراتی عمل شروع ہونا چاہئے۔ بات چیت ہی مسئلے کا حل ہے، آج نہیں تو کل مذاکرات شروع کرنے ہوں گے۔
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو ایک بڑا لیڈر گردانتے ہوئے دلت نے سوالیہ انداز میں کہا کہ تین بار وزیر اعلیٰ رہنے والے ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے بات چیت کیوں نہیں کی جاتی؟ بھارت کے ایک اہم خفیہ ادارے کے سابق سربراہ نے اپنے وزیر اعظم کو جو مشورے دیئے ہیں اور مذاکرات کے لئے جو تجاویز انہوں نے پیش کی ہیں انہیں ماننا یا نہ ماننا مودی کا اپنا اختیار ہے کیونکہ وہ جب سے برسر اقتدار آئے ہیں ایک گھمنڈی سیاست دان کا کردار ادا کر رہے ہیں ان کے ذہن میں یہ خناس سمایا ہوا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کے کسی ہندو رہنما کو وزیر اعلیٰ بنا کر دکھائیں گے اس کے لئے انہوں نے ایک فارمولا بنایا تھا جسے عرفِ عام میں “144” کہا گیا جس کا مفہوم یہ تھا کہ بی جے پی ریاستی اسمبلی میں 45 ارکان کی حمایت سے اکثریتی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی چنانچہ انہوں نے ریاستی انتخابات سے قبل مقبوضہ کشمیر کے کئی دورے کئے، کشمیریوں کو نام نہاد ترقیاتی پیکج کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جب ان کا اکثریت حاصل کرنے کا خیال خام ثابت ہوا اور ان کی پارٹی ریاستی اسمبلی میں دوسرے نمبر پر چلی گئی اور پہلی پوزیشن مفتی محمد سعید (اب مرحوم) کی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے حاصل کر لی تو انہوں نے مفتی محمد سعید پر دباؤ ڈالا کہ وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر ریاست میں ایک مضبوط حکومت تشکیل دے سکتے ہیں مودی کی شرط یہ تھی کہ وزیر اعلیٰ کا تعلق ان کی جماعت سے ہوگا۔
Narendra Modi
مفتی محمد سعید کو یہ شرط قابلِ قبول نہ تھی ان کا کہنا یہ تھا چونکہ پی ڈی پی ریاست کی سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی ہے اس لئے وزیر اعلیٰ کا تعلق ان کی جماعت سے ہونا چاہئے اتحادی جماعت کی حیثیت سے بی جے پی کو اس کی عددی اکثریت کے مطابق کابینہ میں نمائندگی دی جا سکتی ہے۔ لیکن مودی نہ جانے کس زعم میں اپنے مطالبے پر اڑے رہے مقررہ مدت میں حکومت تشکیل نہ پا سکی تو انہوں نے ریاست میں گورنر راج نافذ کر دیا حالانکہ ریاستی گورنر اس کے خلاف تھے اور ان کا خیال تھا کہ مودی کا یہ حربہ ”کاؤنٹر پروڈکٹو” ہو گا۔ لیکن انتخابی کامیابی سے سرشار مودی نے ریاست میں گورنر راج لگا دیا، اس دوران جوڑ توڑ کیا گیا، دھونس دھمکی سے بھی کام لیا گیا پی ڈی پی کے ارکان کو ڈرایا دھمکایا بھی گیا جب دو ماہ بعد گورنر راج کی آئینی مدت ختم ہوئی تو ہنوز پہلے والی پوزیشن تھی چنانچہ مودی نے طوعاً و کرہاً مفتی سعید کو وزیر اعلیٰ مان لیا، مفتی سعید کوئی ایک سال تک اس عہدے پر فائز رہے اور پھر ان کا انتقال ہو گیا تو ان کی بیٹی محبوبہ مفتی اپنی پارٹی کی سربراہ بن گئیں اور اس حیثیت میں وہ وزارتِ علیا کی امیدوار بھی تھیں مودی نے ان کے ساتھ بھی پرانی سودے بازی کی کوشش کی لیکن وہ بھی اپنے موقف پر ڈٹ گئیں تو مودی کو انہیں وزیر اعلیٰ ماننا پڑا۔مودی جب اپنے مقاصد پارلیمانی قوت کے ذریعے حل کرنے میں بْری طرح ناکام ہو گئے تو انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں طاقت کے استعمال کا مجنونانہ فیصلہ کیا اس وقت مقبوضہ وادی اگر لہولہان ہے تو یہ مودی کے اس وحشیانہ جذبے کا نتیجہ ہے۔
کشمیر میں آزادی کے متوالوں نے جو تحریک شروع کر رکھی ہے جب اس میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے تو مودی آتش زیر پا ہو جاتے ہیں چنانچہ انہوں نے وحشیانہ تشدد کے ذریعے 150 سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کر دیا، ہزاروں زخمی ہو گئے جن میں سینکڑوں وہ بھی ہیں جو زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو گئے ہیں اور ان کی بینائی ہمیشہ کے لئے چلی گئی ہے۔ لیکن ظلم و ستم کے ان ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں کا جذب حریت سرد نہیں پڑا انہوں نے طویل ترین کرفیو میں بھی جنازوں کے جلوس نکالے، احتجاجی مظاہرے کئے اور حق خود ارادیت کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ بھارت کے کئی دوسرے سیاسی رہنماؤں نے بھی کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا، نئی دہلی میں کشمیر کی صورتِ حال پر سیمینار اور مذاکرے ہوئے تو ان میں پاکستانی پرچم لہرائے گئے اور کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی گئی۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ایسی ہی ایک تقریب کے بعد منتظمین کے رہنما کو گرفتار کرلیا گیا اور جب اس طالب علم کو عدالت میں پیشی کے لئے لایا گیا تو اس کے وکیل پر تشدد کیا گیا لیکن اس کے باوجود کشمیر کے لئے ہمدردی کی لہر موجود ہے ڈاکٹر فاروق عبداللہ جنہیں ماضی میں کٹھ پتلی سمجھا گیا اب اپنی رائے بدل چکے ہیں اور کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہے ہیں اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
یہی بات ”را” کے سابق سربراہ نے کہی ہے ان کا خیال ہے کہ مودی کو واجپائی کی طرح مذاکرات کا عمل شروع کرنا چاہئے تھا لیکن مودی تو طے شدہ مذاکرات کو ختم کر کے خوش ہو رہے ہیں اور 2017ء میں ریاستی الیکشن جیتنے کے لئے کشمیر کی کنٹرول لائن کے محاذ کو گرم کر رکھا ہے لیکن اب وہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کئے بغیر چارہ نہیں۔ پاکستان مذاکرات کے لئے تیار ہے تاہم اس کا موقف ہے کہ کشمیر ایجنڈے کا لازمی حصہ ہونا چاہئے اس کے بغیر مذاکرات نہیں ہوں گے۔ بھارت اگر اپنی شرائط پر مذاکرات چاہتا ہے تو ان سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ مودی نے دیکھ لیا کہ طاقت کے استعمال کے باوجود کشمیری نوجوانوں کے جذبہ حریت کو دبایا نہیں جا سکا اور نہ آئندہ ممکن ہے اس لئے مذاکرات ہی بہتر راستہ ہے اور آج نہیں تو کل یہی راستہ اختیار کرنا ہو گا۔