تحریر: رقیہ غزل ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جنگل میں ایک بھیڑیا رہتا تھا ایک دن بھیڑیا شکاری کے جال میں پھنس گیا۔بہت زور لگایا ہاتھ پائوں مارے مگر شکاری کے جال سے نہ نکل سکااسی اثنا میں قریب سے ایک چوہا گزرا بھیڑیے نے چوہے کو آواز دی کہ میری مدد کرو چوہے نے پہلے حیل و حجت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ مجھے بیوقوف سمجھا ہوا ہے کہ میں تمہیں آزاد کروں تاکہ تم مجھے سب سے پہلے ہڑپ کر جائو ،بھیڑیا بولا میری فطرت کچھ ایسی ہی ہے مگر میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے احسان کو کبھی نہیں بھولوں گا خود پر بھی قابو رکھوں گا اور تمہیں دوسرے درندوں سے بھی بچائوں گا قصہ مختصر چوہا رضامند ہوگیا اور دانتوں سے جال کاٹ کر بھیڑ یے کو آزاد کروا دیا بھیڑیے نے آزاد ہوتے ہی چوہے کا شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ پورے جنگل کی سیر کی اور اسے باور کروایا کہ مجال ہے کہ اب کوئی تمہاری طرف میلی آنکھ سے دیکھے تم میرے دوست ہو نتیجتاً اب چوہا سینہ پھلا کر جنگل میں گھومنے لگا اور دوسرے جانوروں کو بے عزت کرنے اور تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا اگر جانور اس پر حملہ کرنے کے لیے بڑھتے تو وہ بھیڑ یے کو بلا لیتا اس سے چوہے کی ہمت اور بڑھ گئی اور راہ چلتے ہر چھوٹے بڑے جانور کو بے عزت کرنے لگے جس سے جانوروں کے دل میں اس کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی مگر بھیڑیے کے ڈر کیوجہ سے سب خاموش رہے یونہی دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جنگل میں چندشکاری پھر آنکلے اور بھیڑیے کی ٹانگ میں گولی لگ گئی اب بھیڑیا کافی دن سے بیمار اور لاغر ایک کونے میں پڑا تھا کہ چوہے نے لومڑی کی بے عزتی کر دی اور خود بھاگ کربھیڑیے کے پاس آگیا بھیڑیے دو تین دن سے بھوکا تھا موٹا تازہ چوہا دیکھا تو ایک ہی پنجہ مار کر چوہے کو دبوچ لیا چوہا روہانسا ہو کر بولا :بھائی بھیڑیے یہ کیا کر رہے ہو ؟۔
میرے احسان کا بدلہ یوں دے رہے ہو ؟بھیڑیا بولا :کمبخت تو نے بھی تو اس دن سے جنگل کے تمام جانوروں کو بے عزت کر کے اپنی اوقات سے زیادہ مزے کئے ہیں اور کسی خوف کے بغیر کھا کھا کے اتنا موٹا ہو گیا ہے جس کے بل بوتے پر یہ کیا ہے اب اس کی بھوک مٹا یہ کہا اور اسے ہڑپ کر گیا ۔سچ ہے کہ فطرت کبھی نہیں بدلتی اور بے جوڑ دوستی ہمیشہ نقصان دیتی ہے اس لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کچھ نیا نہیں کیا ہے اس نے وہی کیا ہے جو اس سے امید تھی کیونکہ نریندر مودی کا برسر اقتدار آنا ہی اس بات کا اعلان تھا کہ ایشیا کا امن خطرے میں ہے یہی وجہ ہے کہ اہل دانش پکارتے رہے کہ جس شخص کی کامیابی کا آغاز ہزارہا مسلمانوں کے قتل عام سے ہوا ہے اور ہندو بنئے اپنے مضموم مقاصد کے لیے جسے کامیاب آلئہ کار سمجھتے ہیںاس سے دوستی کی امید رکھنا یا دوستی کے لیے کوشش کرنا ہی بچگانہ اورمجرمانہ سوچ ہے یہ وہ الفاظ ہیں جو تمام تجزیہ کار ،مبصرین ،دانشور ان اورملکی ماہرین بار ہا دوہراتے رہے اور ثبوت بھی فراہم کئے جاتے رہے ان حقائق سے قطع نظر بھارتی وزرا کے اسلام دشمنی سے متعلق بیانات اور بھارتی میڈیا کے اشتعال ا نگیز الزامات بھی یکے بعد سننے پڑھنے میں آتے رہے مگر کیا مجال کہ ہمارے حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک رینگی ہو ،تحائف کے تبادلے اور ملاقاتوں کے قصے ہمیشہ ہی سننے کو ملتے رہے مگر دشمن چالاک تھا۔
اس نے دوستانہ راہداریوں کے ذریے سازشیوںکو ہمارے وطن پاک میں داخل کیا اور مناسب موقع کی تاک میںہماری فصیلوں میں گھس کربیٹھ گیا اور جب جب موقع ملا اس نے کاری وار کیا چونکہ ہمیں دوستی اور مفاد غالب تھااس لئے ہماری نظر ہمیشہ اپنوں کی طرف ہی گئی اور ہم یہی نعرہ لگاتے رہے کہ ہمیں جنگ نہیں چاہیئے ہم تو امن چاہتے ہیں جبکہ یہ روز روشن کے طرح عیاں تھا کہ دشمن ہمیں زیر کرنے کا متمنی ہے جو کہ فصیل وقت پر بارہا پڑھا بھی گیامگر ہمارے بڑے پہلو تہی کرتے رہے پتہ نہیں وہ کونسی مصلحتیں ہیں جو حقائق سے پردہ پوشی کرواتی ہیںمگر اب ظاہر داری کا لفافہ کھل چکا ہے وہ کیا کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بڑوںکی باتوں پر کبھی یقین نہیں آتا جبتک ہم آزما نہ لیں آج سے ستر سال پہلے قائد اعظم نے تلقین کی تھی کہ ہندوئوں سے دوستی کرنا مگر اعتبار مت کرنا کیونکہ یہ قابل اعتبار قوم نہیں ہے یہاں تک کہ یہ نوشتہ دیوار کی طرح تھا کہ ”بغل میں چھری اور منہ منہ میں رام رام ” مگر اب اس محاورے کو بدلنا پڑے گا کیونکہ رام بھی دشنام میں بدل چکا ہے اور چھری بھی سر عام لہرائی جا چکی ہے۔
Narendra Modi
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے یوم آزادی کے موقع پر بلوچستان ،گللگت، ،بلتستان ،اور کشمیر کے خلاف ہرزہ سرائی نے پورے پاکستان کو نفرت اور غصے میں مبتلا کر دیا ہے نریندر مودی نے بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی کا کھل کر اعتراف کیا ہے اور بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کا اقبال جرم کیا ہے اس میں تو واقعتا کوئی شبہ نہیں کہ بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھی کرتا ہے اور اس کے ایجنٹ پاکستان میں بم دھماکے بھی کرتے ہیں اور معصوم شہریوں کو قتل بھی کرتے ہیں اور وہ اپنے اس عمل پر پشیمان بھی نہیں ہوتا بلکہ خوش ہے جبکہ دنیا کے سامنے اس کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے مگر جھوٹ ، ڈھٹائی اور بے شرمی کا عالم یہ ہے کہ اپنے خطاب میں نرییندر مودی نے کہا کہ آزاد کشمیر، بلتستان اور بلوچستان کے عوام نے مجھے شکریہ اور محبت کے پیغامات بھیجے ہیں کہ وہ میرا دل سے احترام کرتے ہیں جبکہ میں ان سے ملا نہیں اور نہ اس دھرتی کو دیکھا ہے میں آج ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔جہاں تک تو بات ہے اعتراف کی تویہ اعتراف نیا نہیں ہے۔
کیونکہ نریندر مودی نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں پہلے بھی برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو توڑنے میں بھارت کا ہاتھ ہے اور پھر مختلف وزرا کے بیانات اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ وحشت انگیز سلوک نے با رہا ثابت کیا کہ بھارتی وزیراعظم دہشت گرد ہے اوروہ مسلمانوں کا خاتمہ چاہتا ہے پھر کلبوشن سنگھ کی گرفتاری نے ان حقائق پر مہر ثبت کر دی مگر وہ کہتے ہیں نا ں کہ !”چھوٹتی نہیں ظالم منہ کو لگی ہوئی ”ہمیشہ مفادات وفاداریوں پر غالب آگئے اور کبھی بھی کوئی با ضابطہ مذمتی بیان یا مذمتی قرارداد جو بین الاقوامی سطح پر ہو وہ حکمرانوں کی جانب سے دیکھنے یا سننے کو نہیں ملی جبکہ میاں صاحب جب بھی نریندر مودی سے ملے بلامشافہ ملے اور رازو نیاز بھی ہوتے رہے یہ اعتماد نہیں تھا تو کیا تھا کہ 150 بھارتیوں کو ویزے کے بغیر پاکستان کی سرزمین پر اترنے کی اجازت دے دی گئی اور ہمیشہ ہی بھارتیوں کو عزت و تکریم سے نوازا گیا۔
Control Line
اس کے برعکس بھارت کا سرد روّیہ اور مسائل بارے ہٹ دھرمی برقرار رہی اور ان کے کسی بھی سربراہ کی جانب سے کبھی بھی حل طلب مسائل بارے نرمی دیکھنے کو نہیں ملی بلکہ یہ بھی دیکھا گیا کہ جب جب اس ذکر کو چھیڑا گیا تو سخت گیر رویہ اختیار کر کے خاموش کروا دیا گیا یہاں تک کہ آئے دن کنٹرول لائین کی خلاف ورزی اور بے گناہوں پر اندھا دھند فائرنگ جیسے واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اس کے بعد ان کا میڈیا ہمہ وقت پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے میں مصروف رہتا ہے جبکہ در پردہ پوری دنیا میں بھارت مضموم کاروائیوں اور دہشت گردیوں کے واقعات میں ملوث ہے یہ باتیں نئی نہیں ہیں ان حقائق سے سب باخبر ہیں اور ان حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستانی عوام اور دانشوران سلگتے رہے کہ راہداریوں پرمناسب نگرانی اور ناکہ بندی ہونی چاہیئے تاکہ دشمن ان راستوں کو مضموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے مگر”اندھا گائے بہرا بجائے” کے مصداق قریبی رفقابھی وہی باتیں قابل غور اورقابل ایکشن سمجھتے ہیں جن میں کوئی مفاد نظر آئے رائے عامہ کو بھی ثانوی حثیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ اس تجویز کو بھی کبھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔
بہر حال بھارتی وزیراعظم کے بلوچستان کے متعلق بیان کے بعد صوبہ بھر میں شہریوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے اور عوام کی جانب سے ریلیاں نکالی جا رہی ہیں ان ریلیوں میں نریندر مودی کے پتلے اور بھارتی پرچم نذر آتش کئے جا رہے ہیں اور شرکا کے پاک فوج کے حق میں نعرے اور پاکستان کے لیے والہانہ محبت کا اظہار کیا جا رہا ہے جبکہ بھارت کے لیے غم و غصہ عروج پر ہے اب بھارتی وزیراعظم سے کوئی پوچھے کہ آپ کو جو پیغامات بھیجے گئے تھے وہ کن لوگوں نے بھیجے تھے کیونکہ آپ سے تو بھارت میں بسنے والے مسلمان بھی شدید نفرت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ نچلی ذات سے بھی کم تر اور وحشیانہ سلوک کیا جارہا ہے بلاشبہ د ہشت گردی ،جھوٹ ،دغا بازی اور مکاری میں بھارتی وزیر اعظم کا کوئی ثانی نہیں ہے اور ان کی انہی خصوصیات کی بنا پر انھیں حالیہ منصب سونپا گیا تھا کیونکہ ہندو اپنا اعلانیہ تسلط چاہتے ہیں اور نریندر مودی یہ خواب پورا کرنے کا خواب سجا کر یہاں تک پہنچے ہیں آج اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نریندر مودی کے رہتے اس خطے پر امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا کیونکہ عادت تبدیل ہو سکتی ہے مگر فطرت کبھی نہیں بدلتی۔۔۔۔۔!