تحریر : صباء نعیم ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ بھارت ہتھے سے اکھڑا ہو اور حالات ناساز گار نہ ہوئے ہوں، جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایسا ہوا تو کرکٹ ڈپلومیسی نے کام دکھایا، جنرل ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے چلے گئے اور شاید بھارتی وزیر اعظم کے کان میں ”کچھ” کہہ دیا، ہمارے خیال میں تو یہ بتایا کہ پاکستان نے ایٹم بم سنبھالنے یا نمائش کے لئے تو نہیں بنایا، بہرحال سرحدوں سے افواج تو واپس ہو گئیں، پھر 2002ء میں جب بھارت کے وزیر اعظم شاعر واجپائی تھے تو اتنی ہی شدید نوعیت کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی تب یہاں جنرل (ر) پرویز مشرف تھے، تب تو بھارت میں نام نہاد سیکولز جماعت کانگرس نے بھی سرجیکل سٹراٹیک والی تجویز کی تائید کردی تھی، تاہم بات پھر ڈپلو میسی سے طے پاگئی اور جنرل پرویز مشرف نے تو بھارت کا دورہ کیا اپنی آبائی حویلی میں گئے اور بقول خورشید محمود قصوری دونوں راہنماؤں کے درمیان مسائل کے حل کا معاہدہ بھی طے پاگیا تھا کہ آخری وقت میں دستخطوں سے پہلے بھارت کی طرف سے سبوتاز کر دیا گیا۔
اب پھر بھارت پر بی۔جے۔پی کی حکومت ہے لیکن فرق یہ ہے کہ وزیر اعظم سفاک نریندر مودی ہے جس کے منہ کو پہلے ہی خون لگا ہوا ہے، وہ انسانی حقوق اور انسانیت کو کیا جانے، جس پر بابری مسجد کی شہادت سے لے کر ٹرین میں لوگوں کو زندہ جلا دینے کے الزام ہیں اس دور( 2002)کا ذکر یوں آیا کہ تب پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن متحرمہ بے نظیر بھٹو ملک سے باہر تھیں تو وزیر اعظم محمد نواز شریف بھی جبری جلا وطنی پر تھے، تب یہاں اپوزیشن اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے درمیان بھی شدید کشمکش اور کشیدگی تھی، مئی2002ء میں جب بھارت کی دھمکیوں میں اضافہ اور سرحدوں پر صورت حال نازک ہوئی تو یہاں نوابزادہ نصراللہ(مرحوم) نے اے۔آر۔ڈی کے پلیٹ فارم سے کل جماعتی کانفرنس منعقد کرڈالی جس نے واضح طور پر اعلان کیا کہ پوری حزب اختلاف متفق اور متحد ہے اور قومی سلامتی کے لئے ریاست کے ساتھ کھڑی ہے۔
اعلامیہ کے موقع پر ہم نے اور دوسرے دوستوں نے نوابزادہ نصراللہ سے پوچھا کہ وہ ریاست کی بات کررہے ہیں حکومت کی کیوں نہیں تو انہوں نے جواب دیا ہم پاکستان کے ساتھ ہیں، پھر انہوں نے وضاحت کی کہ حکومت پر قابض حضرات اپوزیشن کی سنتے اور مانتے نہیں ہیں، ورنہ ان کو خود ایسی کل جماعتی کانفرنس بلانا چاہیے تھی۔
Nawaz Sharif
حالات آج اس سے زیادہ برے ہیں کہ مودی جیسا متعصب ترین شخص برسر اقتدار ہے، وہ اپنی حماقتوں کو چھپانے کے لئے کشیدگی بڑھا رہا ہے، کشمیر میں مظالم مسلسل جاری ہیں اور پاکستان کے خلاف الزام تراشی جاری ہے وزیر اعظم محمد نواز شریف اقوام متحدہ گئے جہاں انہوں نے جنرل اسمبلی سے ایک بہت اچھا خطاب کیا، یہاں تحریک انصاف ان کے ساتھ محاذ آرا ہے، تاہم وہ قومی فریضہ ادا کرنے جا رہے تھے اور وہ خود منتخب جمہوری وزیر اعظم ہیں تو ان کو جانے سے قبل ملک کے اہم سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا اور ان کی سفارشات سننا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے آج (جمعہ) جوسکھر میں میڈیا سے گفتگو کی تو وزیر اعظم کی تقریر کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیااور بہت اچھی تقریر قرار دیا، ساتھ ہی انہوں نے بھارت کو بھی خبر دار کیا کہ وہ کسی اوچھی حرکت سے باز رہے ورنہ اسے بہت نقصان اٹھانا پڑے گا، ساتھ ہی سید خورشید شاہ نے شکوہ کیا اور کہا کہ وزیر اعظم کو جانے سے قبل سیاست دانوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا اور تقریر میں کل بھوشن یادیو، بھارتی مداخلت اور براہمداغ بگٹی کا بھی ذکر کرنا چاہیے تھا، سید خورشید شاہ کا شکوہ بجا ہے۔
ہم نے بھی ان سطور میں کئی بار اس ضرورت پر زور دیا کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی اور باہر کی اہم جماعتوں کا مشاورتی اجلاس بلایا جائے اور بند کمرے میں تبادلہ خیال کر کے پالیسی مرتب کی جائے، ایسی صورت میں تقریر کی اہمیت اور بڑھ جاتی کہ پوری سیاسی قیادت کی حمائت حاصل ہوتی اگرچہ اب بھی قومی یکجہتی کے حوالے سے سبھی ایک جیسے موقف کا اظہار کررہے ہیں جو قومی اتفاق رائے کے مترادف ہے لیکن اس کا اظہار انفرادی ہے، اجتماعی نہیں، ایسا ہونا چاہیے تھا اور اب بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم واپسی میں ایسی کانفرنس یا اجلاس بلالیں اور بھارتی جارحیت ، رویے اور دھمکیوں پر غور کر کے قومی لائحہ عمل طے کرلیں۔
ایک اور اچھی خبر ہے کہ 30ستمبر کے رائیونڈ اجلاس کے لئے ساز گار ماحول بنادیا گیا، مسلم لیگی کارکنوں کو روکا گیا تو انہوں نے آج(جمعہ) رائے ونڈ میں گنڈاسوں اور ڈنڈوں والے مقام پر سفید کبوتر آزاد کر کے فضا میں چھوڑے اور تحریک انصاف کو امن کا پیغام دیا اور خوش آمدید کہا، تحریک انصاف نے بھی اڈہ پلاٹ پر جلسے کا اعلان کیا اور جاتی عمرہ جانے کی بار بار تردید کی، یوں یہ جلسہ ہوگا جو 30ستمبر کو اڈہ پلاٹ پر ہونا ہے، عمران خان بھی مان گئے اور اب وہ اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے اڈہ پلاٹ رائے ونڈ جائیں گے، سیاسی راہنماؤں کے ایک ٹھنڈے فیصلے نے یکایک حالات کو تبدیل کردیا ہے جوش پر ہوش غالب آ گیا ہے۔
Panama Leaks
پاناما لیکس کے بعد بہاماس لیکس سکینڈل سامنے آیا اس میں بھی مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے نام ہیں جنہوں نے بہاماس میں آف شور کمپنیاں بنائیں، وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایف،آئی،اے،سٹیٹ بنک، سیکیورٹی ایکسچینچ اور ایف،بی،آر کو ہدایت کی کہ بہاماس لیکس میں جن کے نام آئے ہیں ان کے حوالے سے تحقیقات کی جائیں چاہے کوئی بھی ہو، وزیر خزانہ کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم کی اجازت سے یہ ہدایت دی گئی ہے۔
وزیر خزانہ نے بڑی جلدی کی کہ اس میں ان سمیت کسی معروف حکومتی شخصیت کا نام نہیں ہے، پھر پاناما لیکس کے لئے ایسا حکم کیوں نہیں؟ اسے کیوں لٹکا یا جارہا ہے اور کمیشن کیوں نہیں بن رہا، ٹی،او،آر اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ پانچ ماہ سے معاملہ لٹک رہا ہے اور یہاں فوری حکم، دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ یہ سب ادارے پانامالیکس کے حوالے سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں تحقیقات سے انکار کر چکے ہیں اور کمیٹی نے ان کو ہدائت کی ہے کہ ایک ماہ کے اندر تحقیق کر کے رپورٹ دی جائے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔