بی جے پی لیڈر نریندر مودی کا ہندوستان کے وزیرا عظم بننے کا خواب بالآخر پورا ہونے جارہا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ان کی پارٹی نے کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابقہ ریکارڈز کو توڑ دیا ہے اور بی جے پی کو خود اپنے دم پر اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ انتخابات میں کامیابی اور وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد نریندر مودی کیلئے آزمائشوں کا دور شروع ہوگا۔
مودی کا ٹریک ریکارڈ پہلے سے ٹھیک نہیں ہے۔ جہاں انہیں گجرات کے 2002 کے مسلم کش فسادات کیلئے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے وہیں گجرات کی ترقی کے دعوے بھی درست نہیں کہے جاسکتے۔ اعداد و شمار کا الٹ پھیر ان کا خاصہ رہا ہے اور بحیثیت وزیر اعظم انہیں اس طرز عمل کو ترک کرنا ہوگا۔ مودی کے مخالف مسلم امیج کو دیکھتے ہوئے ہی آر ایس ایس نے انتخابی نتائج کے فوری بعد ایک بیان دیتے ہوئے انہیں ہدایت دی تھی کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اختیار کریں۔دیکھنا یہ ہے کہ مودی اس ہدایت پر کس حد تک عمل کرتے ہیں کیونکہ انتخابی مہم کے دوران انہوں نے کبھی بھی مسلمانوں کے لئے نرم گوشے کا اظہار تک نہیں کیا تھا۔
آر ایس ایس کی جانب سے مودی پر یہ دباؤ ڈالا جائیگا کہ وہ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کو یقینی بنانے اقدامات کریں۔ یہ آر ایس ایس کی بنیادی پالیسیاں اور نظریات ہیں اور سکیولر ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کو اس سلسلہ میں پڑنے والے دباؤ کو قبول کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کو مسلمان کبھی قبول نہیں کرینگے اور یہ مسئلہ عدالت میں زیر التوا ہے۔ اس کیلئے اگر کوئی اور راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو یہ مسلمانوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ نریندرمودی جسکے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
قصاب اور چائے بیچنے والے مودی کو جو مسلم دشمنی میں سب سے آگے ہے کو بھارت کا وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے جسکی حلف برداری کی تقریب 26مئی کو نئی دہلی میں ہو گی کے حوالہ سے بڑے پیمانے پر اور غیر معمولی انتظامات کئے جا رہے ہیں جبکہ غیر ملکی مہمانوں کی حفاظت کیلئے سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی 26 مئی کی شام 6 بجے بھارت کے 15 ویں وزیراعظم کا حلف اٹھائیں گے۔ تقریب میں شرکت کیلئے سارک ممالک کے سربراہان اور دیگر غیر ملکی ممالک کے سربراہان شرکت کریں گے جبکہ اس موقع پر 4 ہزار کے قریب مہمانوں کی آمد متوقع ہے۔نر یندر مودی کو اپنی جماعت کی تشکیل کے تیس سال بعد اقتدار کا موقع ملا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے پاکستان’ افغانستان’ سری لنکا’ بنگلہ دیش اور دیگر پڑوسی ممالک کے سربراہان کو سرکاری طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی’ سری لنکن صدر مہندا راجا پکسے اور مالدیپ کے صدر عبداللہ یامین نے تقریب میں شرکت کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد ان دنوں جاپان کے دورہ پر ہیں اور ان کا یہ طویل دورہ 27 مئی کو ختم ہو گا۔ لہٰذا وہ اس حلف برداری تقریب میں شرکت نہیں کر سکیں گی تاہم ان کی جگہ اہم حکومتی نمائندہ نریندر مودی کی حلف برداری تقریب میں ضرور شرکت کرے گا۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کی جانب سے پارلیمنٹ کے سپیکر تقریب میں شرکت کریں گے۔
پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کو بھی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے باقاعدہ دعوت نامہ موصول ہو چکا ہے۔ نواز شریف کو نریندر مودی کی جانب سے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دینے پر تنازع کھڑا ہو گیا، اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والی جماعت اب مسلمان لیڈروں کو تقاریب میں مدعو کر رہی ہے۔ انڈیشن نیشنل کانفرنس کے رہنما منیش تیواری نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ انتخابی مہم میں پاکستان مخالف بیانات دیئے گئے جو کہ بی جے کی تخلیق تھی، اس میں انتہائی نامناسب زبان استعمال کی گئی، اب بی جے پی پاکستان کے وزیر اعظم کو نریندر مودی کی تقریب میں حلف برداری میں شرکت کی دعوت دے دی ہیں۔ نریندر مودی کی نواز شریف کو اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت پر انتہا پسند ہندو دنگ رہ گئے کیونکہ نریندر مودی متعدد بار اپنی انتخابی مہم میں کہہ چکا ہے کہ پاکستان کو اسکے بھاشن میں جواب دینا چاہئے۔
Nawaz Sharif, Narendra Modi
کانگریس کی حکومت لو لیٹر پاکستان کو لکھ رہی ہے پاکستان میں ایبٹ آباد طرز کا آپریشن پریس نوٹ جاری کر کے نہیں کیا جاتا غرضیکہ قصاب مودی نے پاکستان دشمنی میں بہت کچھ کہا اور اس نے الیکشن ہی اسلام و پاکستان دشمنی پر لڑا۔بی جے پی نے اپنے منشور میں باربی مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا بھی اعلان کیا ہوا ہے۔مودی کے جیتنے کے بعد پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اسے فون کیا اور مبارکباد دی ساتھ ہی پاکستان کا دورہ کرنے کی بھی دعوت دے ڈالی،وزیراعظم صاحب نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ گزشتہ برس جب وہ ایک لمبے عرصے بعد اقتدار میں آئے تھے تو انہوں نے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو دعوت دی تھی کہ وہ تقریب حلف بردار ی میں آئیں مگر بھارت نے بالکل ہی خاموشی اختیار کر لی کوئی جواب نہیں دیا لیکن اب مودی کا دعوت نامہ آیا تو پاکستان میں شور مچ گیا اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں کہ خطے میں امن کے قیام کے لئے وزیر اعظم کو جانا چاہئے لیکن خورشیدشاہ یہ بھول رہے ہیں کہ بھارت اسے خطے میں خود امن نہیں چاہتا اگر وہ امن چاہتا ہے تو مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوج کو نکالے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے مگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھے ہوئے ہے۔انڈیا کی آنکھوں میں کھٹکنے والے اور اسکی دہشت گردی کو پوری دنیا میں بے نقاب کرنے والے ،کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف اظہار یکجہتی کرنے والے پاکستانی قوم کے عظیم قائد و لیڈر جن سے امریکہ بھی خوفزدہ ہے ،منموہن امریکی صدر اوباما کے پاس جنکی شکایات لے کر جا تا رہا ،مرد مجاہد پروفیسر حافظ محمد سعید نے بھارتی نامزد وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر وزیراعظم نواز شریف کے دورہ بھارت کی مخالفت کر دی اور کہا کہ نواز شریف کی دعوت پ سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے بیان تک نہیں دیا تھا۔
لہذا وزیراعظم کو نریندر مودی کی دعوت پر بھارت کا دورہ نہیں کرنا چاہیے. البتہ مودی کشمیر پرپیش رفت کے لئے بلائیں تو بات چیت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مودی کی حلف برداری میں شرکت کی دعوت پاکستان کو جال میں پھنسانے کی سازش ہے۔ مودی کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ایسے شخص کی حلف برداری میں شرکت کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ پاکستان نے توقع کا اظہار کیا ہے کہ بھارت کی نئی حکومت اپنے پڑوس میں امن قائم کرنے کو اہمیت دے گی اور پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت تمام غیر معمولی تنازعات کے حل کیلئے بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کئے جائیں گے۔ پاکستان ایسے مذاکرات کا خواہاں ہے جس کے نتیجہ میں دونوں ملکوںکے درمیان غیر معمولی تنازعات خوش اسلوبی سے حل ہوں اور خطہ میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔
پاکستان کو یہ بھی توقع ہے کہ یہ مذاکرات پائیدار ہوں گے اور تعطل کا شکار نہیں ہوں گے۔حکومت بھارتی نومنتخب حکومت کے ساتھ مذاکرات ضرور کرے لیکن سب سے پہلے پاکستان کی شہہ رگ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات ہونے چاہئیں اگر کشمیر پر مذاکرات نہیں ہوتے اور صرف تجارت ،دوستی کی باتیں ہوتی ہیں تو ایسے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ،اگر وزیر اعظم میاں نواز شریف مودی کی پاکستان دشمنی پر مبنی بیانات آن دی ریکارڈ ہونے کے باوجود انڈیا جاتے ہیں اور حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوتے ہیں تو پاکستانی قوم انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔