واشنگٹن (جیوڈیسک) بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی صدر ٹرمپ کی دعوت پر اتوار 25 جون سے امریکہ کا دو۔روزہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں، جس میں وہ امریکہ ۔بھارت اسٹرٹیجک تعلقات کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’اس دورے میں کسی بڑی پیش رفت کی توقع کم ہی ہے‘‘ اور دونوں لیڈر 26 جون کو ہونے والی ملاقات میں ایک دوسرے کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش ہی کریں گے۔
’وائس آف امریکہ‘ نے اس دورے کے حوالے سے ایسے کچھ ماہرین سے خصوصی گفتگو کی جن کی بھارت امریکہ تعلقات پر گہری نظر ہے۔
’بروکنگز انسٹی ٹیوٹ‘ میں انڈیا پراجیکٹ کی سربراہ، ڈاکٹر تنوی مدن کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کی سب سے نمایاں بات اس سربراہ ملاقات کا ہونا ہی ہے جس میں مودی صدر ٹرمپ کو پاکستان، افغانستان، دہشت گردی اور معیشت کے بارے میں بھارتی پالیسی کے حوالے سے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ تعلقات گزشتہ دنوں قدرے سرد مہری کا شکار ہوگئے تھے، جب صدر ٹرمپ نے ماحولیات کے حوالے سے پیرس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کرتے ہوئے بھارت پر الزام لگایا تھا کہ اُس نے اس معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے اربوں ڈالر کی رقم وصول کی تھی۔
بھارتی وزیر خارجہ نے جواب میں اس کی سختی سے تردید کی تھی۔ تاہم، ڈاکٹر تنوی مدن کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں نرندر مودی اختلافی معاملات کو زیر بحث نہیں لائیں گے اور صرف اُن اُمور پر بات کریں گے جو دونوں ممالک میں مشترکہ مفاد کے مطابق ہوں۔
ڈاکٹر مدن کہتی ہیں کہ دونوں ممالک کے سربراہ ان اسٹریٹیجک تعلقات کو ایک نئی نہج پر لیجانا چاہتے ہیں۔ لیکن، دونوں ملکوں کی نوکر شاہی اس کے راستے میں حائل ہے۔ لہذا، اس ملاقات میں وزیر اعظم مودی اور صدر ٹرمپ اپنے اپنے ملک کی نوکر شاہی کو بھی ایک پیغام بھی دینا چاہیں گے اور یہ وضاحت کریں گے کہ وہ ان تعلقات کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ، مودی صدر ٹرمپ کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ بھارت امریکہ کے اسٹریٹجک مفادات کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
بھارت میں بہت سی امریکی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن کی نہ صرف پیداوار بڑھ رہی ہے بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار بھی فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارتی ہنرمند کارکنوں کی بہت بڑی تعداد امریکہ میں موجود ہے جو امریکی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
ڈاکٹر مدن کے مطابق، امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت بحر ہند کے خطے میں بڑا کردار ادا کرے ۔ لہذا، اس ملاقات میں میری ٹائم سکیورٹی اور دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے حوالے سے بھی گفتگو ہوگی۔ مودی صدر ٹرمپ کو یہ یقین دلانے کی کوشش بھی کریں گے کہ بھارت افغانستان میں امریکی مقاصد کے حصول میں بھی مدد فراہم کر سکتا ہے۔ امریکہ کی بھی کوشش ہوگی کہ وہ بھارت کو افغانستان میں اپنا کردار بڑھانے پر آمادہ کرے۔ لیکن، امریکہ بھارت سے افغانستان میں فوجی بھیجنے کی درخواست قطعاً نہیں کرے گا، کیونکہ نہ صرف بھارت کے اندر اس اقدام کی بہت مخالفت ہوگی، بلکہ پاکستان کے متوقع رد عمل کے حوالے سے بھی یہ کرنا مشکل ہوگا۔
لہذا، صدر ٹرمپ چاہیں گے کہ بھارت افغانستان میں اقتصادی ترقی، دفاعی سازو سامان کی فراہمی اور دیگر شعبوں میں تعاون فراہم کرے۔
’یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ کے ایسوسی ایٹ وائس پریذیڈنٹ، معید یوسف نے ایک خصوصی ملاقات میں بتایا کہ امریکہ بھارت کو ایک ایسے کلیدی شراکت دار کے طور پر دیکھ رہا ہے جو چین کے خلاف ایک دیوار بنے گا۔ لیکن، سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اس سے متفق ہے؟ ہندوستان میں خارجہ پالیسی بڑی حد تک آزاد ہے۔ اس وجہ سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارت چین کے خلاف وہ کردار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا جو امریکہ چاہتا ہے۔
بقول اُن کے، ’’یوں، امریکہ بھارت تعلقات کے حوالے سے جو بیانیہ اپنایا گیا ہے وہ حقیقت سے بہت آگے نکل گیا ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ کی ’امریکہ پہلے‘ پالیسی کے حوالے سے بھارت میں یہ خدشات محسوس کئے جا رہے ہیں کہ بھارت میں امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کم ہونے سے روزگار میں بتدریج کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں ایف۔16 طیاروں سمیت دیگر فوجی سازو سامان کی تیاری کے حوالے سے بھی اندرون ملک بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں اور خاص طور پر دونوں ممالک کی نوکرشاہی معاملات کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔ لہذا، اس سربراہ ملاقات میں دونوں رہنماؤں کو یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔
معید یوسف کا خیال ہے کہ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، اُس وقت تک اُمید حقیقت سے آگے رہے گی۔
معید یوسف کے مطابق، بھارتی وزیر اعظم مودی پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں، امریکہ شاید مکمل طور پر اُن کی حمایت نہ کر سکے۔ دوسری جانب، امریکہ کو بھارت سے جو توقعات ہیں، اگر بھارت اُنہیں پورا نہ کرسکے تو اس حوالے سے بھی دو طرفہ تعلقات میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
معید یوسف کا کہنا ہے کہ یہ سربراہ ملاقات ایک ابتدائی نوعیت کی ملاقات ہی رہے گی جس میں دونوں ممالک کے سربراہ ایک ذاتی تعلق قائم کرتے ہوئے ایک دوسرے کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کریں گے۔ امریکہ کی بھارت کے بارے میں پالیسی کے حوالے ابہام موجود ہے۔ امریکہ کا یہ بیانیہ جاری رہے گا کہ بھارت امریکہ کیلئے ایک نہایت اہم ملک ہے اور رہے گا۔ لیکن، اس سربراہ ملاقات سے کسی بڑے ’بریک تھرو‘ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان اور چین میں اس بھارت۔امریکہ ملاقات کو کیسے دیکھا جا رہا ہے؟ ڈاکٹر مدن کہتی ہیں کہ پاکستان میں اس دورے کے حوالے سے کسی قدر بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ جاننا چاہے گا کہ اس ملاقات کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات اور افغانستان میں بھارتی کردار کے حوالے سے کیا بات چیت ہوتی ہے۔ کیا ملاقات میں اُن دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں کے حوالے سے بھی گفتگو ہوگی جن کے بارے میں الزام لگایا جاتا ہے کہ اُن کا کوئی نہ کوئی تعلق سرحد پار سے بھی ہے۔ دوسری جانب، چین یہ جاننا چاہے گا کہ مودی۔ٹرمپ ملاقات میں دفاعی امور اور سکیورٹی کے علاوہ امریکہ کی طرف سے بھارت سے بحر ہند کے خطے میں کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے حوالے سے کیا بات چیت ہوتی ہے۔