اکثر میرے دادا مجھے دور سے بلاتے اور حقے کی چلم میں پڑی ٹھنڈی راکھ کو کسی تنکے یا لکڑی سے ہلانے کو بولتے، میں اسے ایک عجیب سی حرکت سمجھ کر بے دلی سے سر انجام دیتا- لیکن ہمیشہ حیران ہوتا کہ آخر یہ بجھی ٹھندی راکھ اچانک پھر سے کسے بھڑک اٹھتی ہے اور میرے دادا پھر کش لگانا شروع کر دیتے ہیں- بہت بعد میں جا کے یہ راز منکشف ہوا کہ راکھ اپنے اندر کچھ چنگاریاں محفوظ کر لیتی ہے جو بعد میں موقعہ پا کر پھر سے بھڑک اٹھتی ہیں- ناصر عباس نیر کی نئی تصنیف”راکھ سے لکھی گئی کتاب” بھی ادب کی چلم میں موجود اس راکھ جیسی ہے جو اپنے اندر منفرد اسلوب اور بیانیے کی چنگاری لیے ہوئے ہے، جو قاری کو صرف ظاہری اسلوب کی یک سمتی نہیں بلکہ غور و فکر کے نئے الاؤ روشن کرنے پر مجبور کرتی ہے- جدید مصنفین، نمرہ احمد، عمیرہ احمد، ہاشم ندیم وغیرہ کے اکثر افسانے ایک خاص کیفیت کے حامل ہیں اور ذہن کے محدود گوشوں تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں لیکن افسانوں کے اس مجموعے میں شامل ہر افسانہ قاری کے ذہن و دل میں رچتا بستا ہوا اور دماغ کے ہر گوشے کو بیداری کا احساس دلاتا ہے-
افسانوں کے منفرد عنوان، اسلوب اور خیال سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مجموعہ نووارد لکھاری کا نہیں ہے- درخت باتیں ہی نہیں کرتے، ایک پرانی تصویر کی نئی کہانی، لکھنا بھی سزا ہے پر آدمی ہونا بڑی سزا ہے، گم نام خط اور عورت کو زیادہ محبت کس سے ہے وغیرہ ایسے افسانے ہیں جنہیں ایک بار پڑھنے پر طمانیت محسوس نہیں ہوتی بلکہ انھیں بار بار پڑھنے کا من کرتا ہے اور ہر بار ان کا موضوع دل و دماغ کے کئی بند ابواب کو کھولتا چلا جاتا ہے- مصنف اپنے پہلے افسانے میں لکھتے ہیں، “میں نے نہیں سنیں، مگر مجھے یقین ہے کہ درخت باتیں کرتے ہیں- کچھ باتوں پر اس لیے یقین ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے کہی ہوتی ہیں، جن پر آپ کو یقین ہوتا ہے” – یہ افسانہ”درخت باتیں ہی نہیں کرتے” باور کرواتا ہے کہ انسان چاہے جتنا ترقی یافتہ اور بدلاؤ کا حامل ہو مگر وہ اپنی اصل اور آباؤ اجداد سے کسی نہ کسی صورت جڑا ہی رہتا ہے-
ماضی کی پرچھائی انسان کے ذہن و دل پر ہمیشہ چھائی رہتی ہے اور اگر کوئی اسے جھٹک بھی دے تو وہ لاشعور میں اپنے جالے بن لیتی ہے جو گاہے بگاہے سوچ و فکر کے پروانوں کو جکڑتے رہتے ہیں- اسی افسانے میں مصنف لکھتے ہیں، “دنیا میں سب سے اونچی آواز وہ ہے جو آدمی کے اندر ہوتی ہے-اس کے ہوتے ہوئے کسی اور کی آواز اول تو سنائی نہیں دیتی، سنائی دے تو اس کا مطلب وہی ہوتا ہے جو آدمی کے اندر کی آواز کا ہوتا ہے-یہ اونچی آواز اس عفریت کی مانند ہے جس کا رزق دنیا جہان کی سب آوازیں ہیں- میں نے اس آواز کو خاموش کرنے کی پوری کوشش کی ہے، تاکہ درختوں کی آواز سن سکوں- دو ایک لمحوں کے لیے یہ آواز خاموش ہوئی ہے، اس سمے مجھے درختوں میں صرف خاموشی سنائی دی-
میں اب تک تذبذب میں ہوں کہ اس وقت دنیا کی سب سے اونچی آواز خاموش ہوئی تھی یا وہی خاموشی درختوں کی زبان تھی”- اسی طرح افسانہ،” عورت کو زیادہ محبت کس سے ہے؟ ” میں مصنف نے سیلاب زدہ گاؤں کا ایک منظر پیش کرتے ہوئے وہاں موجود مکینوں کی گفتگو کچھ اس انداز سے تحریر کی ہے،” کچھ بزرگ مردوخواتین اور جوان ان ٹوٹے گھروں کے ملبے کے درمیان کھڑے تھے- چپ اور اداس تھے- سب نے محسوس کیا کہ ملبہ انھیں ان لاشوں کی یاد دلاتا ہے، جنہیں دفنایا نہ گیا ہو- کون ہے جو اپنے پیاروں کی لاشوں کو اتنے دنوں تک دیکھنے کی تاب لا سکے؟ ایک بوڑھا بولا، لاش یہ یاد نہیں دلاتی کہ کوئی شخص زندہ تھا، یہ یقین دلاتی ہے کہ زندگی آخر کار ختم ہو جاتی ہے- دوسرا شخص بولا جو دوسرے گاؤں میں دینیات کا استاد تھا، ویرانی اور وحشت کو دیر تک برداشت کیا جا سکتا ہے، ٹوٹ پھوٹ کو نہیں- بے گھری کو بھی کوئی نہ کوئی آسرا مل جاتا ہے، بگاڑ اور خرابی کو نہیں”-
” راکھ سے لکھی گئی کتاب” اپنے اسلوب اور انداز سے نہ تو قاری کی آنکھوں میں جلن پیدا کرتی ہے اور نہ ہی اس میں شامل موضوعات اسے اکتاہٹ محسوس کرنے پر مجبور کرتے ہیں- ہر افسانہ دلچسپ مگر گہری سوچ کا حامل ہے جو آغاز سے ہی قاری کو اپنے سحر میں جکڑتا ہے اور آخرتک اسے جکڑے رکھتا ہے- بعض جگہوں پر مبہم یا کچھ پیچیدہ خیالات کا احساس ہوا جو مصنف نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن باوجود اس پیچیدگی کے، ہر افسانہ ایک مکمل خیال اور سوچ کا عکاس ہے-
ناصر عباس نیر کے افسانوں کا یہ نیا مجموعہ سوچ و فکر کے نئے زاویوں کو چھوتا ہوا قاری کو کتاب رکھنے کے بعد بھی دل و دماغ میں اس کے اثرات کو محسوس کرتے رہنے پر آمادہ کرتا ہے-امید ہے کہ دلچسپ اور منفرد افسانوں پر مشتمل یہ مجموعہ ادبی ذوق کے حاملین کو ادب کی چلم میں چھپی چند نئی چنگاریوں سے آشنا کروانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔