تحریر : عبدالوارث ساجد اپنے بڑوں کی خدمات بھلا دینانا خلف اور احسان فراموش لوگوں کا وطیرہ ہے۔ محسنین کی پاکیزہ حیات اور ان کی خدمات کو یاد رکھنا اور ان کو خراجِ تحسین پیش کرنا صالح فطرت اور خوش بخت افراد کا سلیقہ زندگی ہے۔ یہ ایک ایسی ہی تقریب تھی جس میں پاکستان بھر کے ادیب اور کالم نگاروں جمع ہو کر آسمان ادب کے دو درخشندہ ستاروں افتخار مجاز اور معروف شاعر ناصر بشیر کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے۔ مجھے اس تقریب کی دعوت ورلڈ کالمسٹ کلب کے روحِ رواں ممتاز حیدر اور شاہد محمود نے دی تو میرے پاس انکار کا کائی جواز ہی نہ رہا کیوں کہ دونوں شخصیات میری ہر دلعزیز ہستیاں تھیں۔
ورلڈ کالمسٹ کلب کا ادب کے میدان میں گراں قدر خدمات سر انجام دینے واے محسن بزرگوں کی تابناک زندگیوں کو عوام الناس کے سامنے لانے کا جذبہ ٔ خیر اک بے مثال کاوش ہے جس سے نسلِ نو کو اُن کی سیرت اور زندگی بھر کے کارنامے سن کر نہ صرف اپنے آپ کو سنوارنے بلکہ خود کو ادب کے لیے وقف کرنے میں بھرپور رہنمائی ہو گی۔ ٢٧ فروری کی سہ پہر میں الحمراء ادبی بیٹھک پہنچا تو پاکستان بھر کے مختلف اخبارات سے منسلک کالم نگاروں سے بیٹھک بھری پڑی تھی تقریب چار بجے سے ہی شروع ہو چکی تھی۔ چار گھنٹے تک جاری رہنے والی اس نشست میں بہت کچھ کہا گیا اور بہت کچھ سننے کو ملا۔ جن دوشخصیات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے اتنے سارے لوگ جمع تھے ان دونوں شخصیات میں بہت سی قدریںمشترک ہیں۔ بلاشبہ انہوں نے شعرو ادب میں بہت کام کیا، بہت نام کمایا مگر نام کے سوا اور کچھ نہ کمایا ان کی پوری زندگی میں ادب کے لیے خدمات ہی خدمات ہیں۔
افتخار مجاز کے نام سے شناسائی زمانہ طالب ِعلمی میں ہوئی ۔ مختلف رسائل میںان کی تحریریں پڑھنے کو ملتی رہیں اسی دوران میں روزنامہ پاکستا ن میں ناصر بشیر صاحب کا ۔۔۔ ”چیک پوسٹ ” چھپتا تھا ۔ ہمارے جامعتہ الدعوة میں صرف نوائے وقت اور پاکستان ہی طالبِ علموں کے لیے میسر تھے اور ناصر بشیر صاحب کا کالم صفحہ ٢ پر پڑھنے کو ملتا تھا۔ یہ ١٩٩٨ء کا زمانہ تھا تب سے مجھے اخبارات کے ادارتی صفحوں کا مطالعہ کا شوق ہوا کرتا تھا اور لکھنے والوں کے بارے میں جاننے کی جستجو ہمیشہ دل میںہوا کرتی تھی۔ ٢٠٠٨ء میں جب میں نے پاکستان جوائن کیا تو ناصر بشیر صاحب کو بہت قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ انکے کالم اور شاعری تو پڑھنے کو ملتی ہی تھی ان کی شخصیت کی سادگی اور سچائی نے اور متاثر کیا۔ جس رنگ ڈھنگ میں وہ پہلے دن سے تھے آج بھی ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ بیسیوں کتابوں کے مصنف ، ہزاروں کالم لکھنے اور سینکڑوں شاگرد رکھنے والے نامور شاعر آج بھی بالکل سادگی سے کسی سڑک کنارے موٹر سائیکل روک کر ملتے ہیں تو اس قدر اپنائیت سے کہ کسی آدمی کو شُبہ تک نہیں ہوتا میں واقعی کسی بڑی ہستی سے مل رہا ہے۔ جو ملا وہ گرویدہ ہو گیا۔
نہ کوئی دکھاوا، نہ کوئی تصنع، صاف گو اور خوش کلامی بس یہی میراث ہے اور یہی زندگی بھرکا سرمایہ آج بھی یہی ان کی خوبیاں تھیں کہ سینکڑوں کالم نگار ان کی خوبیوں کے گُن گانے جمع تھے پہلے دن سے انہوں نے لکھنے کا آغاز کیا تو پاکستان کے ہو کر رہ گئے نہ سیاست دانوں کی طرح کوئی پارٹی بدلی اور نہ فنکاروں کی طرح کوئی ملک۔ وہ آج بھی برملا کہتے ہیں کہ میں پاکستانی تھا اور آج بھی پاکستانی ہوں۔یہ ہی حال افتخار مجاز کا ہے وہ پی۔ ٹی ۔ وی میں گئے تو پوری زندگی وہیں گزار دی۔
افتخار مجاز کی بات کی جائے تو ان کا تذکرہ ناصر بشیر کی سی صفات و اخلاقیات سے ہی سے منسلک ہے بس اک فرق ہے تو نام کا۔ باقی تمام قدریں مشترک ہیں۔ اخلاق اور اخلاص سے بھرا ہوا افتخار مجاز جیسا شخصیت میں نے زندگی میں کہیں اور نہیں دیکھا۔میں نے ان کوپڑھا بہت پہلے سے تھا مگر ملاقات ان سے پی ۔ ٹی ۔ وی کے دفتر میں ہوئی غالباً اپریل ٢٠١٢ ء کی بات ہے میں حفیظ گوہر صاحب کے توسط سے ایک اشتہار کے سلسلے میں ان کے پاس گیا۔ وہ اس قدر اپنائیت سے ملے اور اس قدر چاہت سے چائے پیش کی کہ میںحیران بھی تھا اور شرمسار بھی۔ اتنے بڑی پوسٹ پر بیٹھا آدمی اگر ایک طالبِ علم کو چائے میں چینی تک کو ملا کر خوددے گا تو لا محالہ شرمسار ی تو ہو گی۔اس اک ملاقات نے مجھے اس کا مرید کر دیا۔ میرے در دمیں انکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ۔ نہ صرف انہوں نے حوصلہ دیا بہت سی دعائیں کیں اور سال بھر فون کر کے پتہ کرتے رہے کہ بیٹا آپ کا مسٔلہ حل ہوا کہ نہیں۔ ایک ایسے انسان کو جس سے جان ہو نہ ہو پہچان اس کے لیے آج کے دور میں دل میں درد رکھنا بلاشبہ ایک صالح اور خوش بخت انسان ہی کر سکتا ہے۔
افتخار مجاز ایک ادیب ہی نہیں بلکہ ایک درد مند انسان بھی ہے جو محبت اور خلوص سے لبا لب بھرا ہوا ہے ۔ خدائے واحدکی طرف سے عطا ہونے والی ان خوبیوں کے تذکرہ اس تقریب میںہر زبان پر تھے۔ ایثار رانا،محمد ناصر اقبال خان، ذبیح اللہ بلگن، ڈاکٹر عمرانہ مشتاق، رابعہ رحمان، اعتبار ساجد، علی نواز شاہ، تاثیر مصفطی، شاہین بھٹی، جاوید اقبال کس کس کا نام لیا جائے جن کی زبانیں ایسے ہی بے شمار واقعات و حالات بیان کر رہی تھیں۔اور ان کے اعزاز میں آنیو الے سینکڑوں لوگ جواِن سے محبت رکھتے تھے وہ ان کے انہیں اوصاف حمیدہ کے گرویدہ تھے۔ یحییٰ مجاہد جیسا انسان جو صحافیوں اور کالم نگاروں کا دوست و معاون ہے۔سامعین میں سب سے پہلے موجود تھا۔ روزنامہ پاکستان کے میگزین ایڈیٹر نصیر الحق ہاشمی بھی صف اول میں بیٹھے تھے۔
مسرت خان، منشا قاضی ، سعید فروز جیب چوہان، اصغر بھٹی کون کون نہیں تھا۔ کب رات کے آٹھ بجے کسی کو احساس نہیں تھا اس قدر دلچسپ ور وح افزاء تقریب کہ کسی کا من اٹھنے کو نہیں کررہاتھا ۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے سرپرست اور ممتاز کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی جب حرف آخر کہنے اسٹیج پر آئے تو انہوں نے بھی حال ِ دل کہہ دیاکہ اس مجلس کو برخاست کرنے کو دل ہی نہیں کررہا۔ محبت والفت ے بھری ہوئی یہ مجلس واقعی ختم نہیں ہونی چاہیے من یہی کہتا تھا کہ ذبیح اللہ بلگن اپنے دلنشیں انداز سے مقرر یں کر بلاتے ر ہیں اور ہم سنتے رہیں بس وقت تھم جائے اور باتیں کبھی ختم نہ ہوں مگر وقت کب کسی کی سنتا ہے۔
آخر کو جب ایثار رانا نے اختتامی گفتگو کی توانہوں نے سب کے دل لوٹ لیے۔ ایسی تقریبات کا انعقاد اور ایسی شخصیت کو خراجِ تحسین بلاشبہ ورلڈ کالمسٹ کلب کا شاندار کارنامہ ہے ۔ ایسی شخصیات جنہوں نے ادب کے میدان میں گراں قدر خدمات دیں۔ ان کے تذکرہ ضرور ہونا چاہیے کیونکہ یہی لوگ پاکستان کا اصل سرمایہ ہیں جنہوں نے زندگی بھر میں شعر وادب کے سوا کسی کی کوئی سیوا کی اور نہ ہی اس کے بدلے میں کوئی ”اجر” پایا ایسا سرمایہ لازوال ہوتا ہے اور ان کو سنبھالنا اور خیال رکھنا لازمی بھی ہے اور فرض بھی۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کی انتظامیہ اس فرض شناسی پر شاباش کی مستحق ہے۔