تحریر: روہیل اکبر رائے ونڈ میں تحریک انصاف کا جلسہ پر امن طور پر ختم ہوگیا مگر جلسہ سے پہلے حکومتی نمائندوں نے گرما گرمی کا جو ایک ماحول پیدا کردیا تھا اور اسکے جواب میں انکو جو القابات دیے گئے وہ اب انکے نام کا حصہ بن گئے ہیں نام کے ساتھ کسی اور نام کا اضافہ ہوجانااس بات کی علامت ہوتا ہے کہ اس انسان میں بہت زیادہ خوبی ہوتی ہے یا پھر اسکی بیوقوفی کی بدولت اسکے نام کے ساتھ اضافہ ہوجاتا ہے۔ جیسے بزرگ سیاستدان نواب زادہ نصراللہ خان (مرحوم) کو ملک میں جمہوریت کی بحالی کی خاطر قربانیاں دینے پربابائے جمہوریت ،محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید جمہوریت کہا جاتا ہے جبکہ کچھ ایسی ہی صورتحال عمران خان کے جلسہ سے قبل پنجاب کے مختلف شہروں میں ہوئی کسی طرف سے ڈنڈے لہرائے گئے تو کسی طرف سے مکے دکھائے گئے۔
بلخصوص شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں، حکومت کے حامیوں اور میاں برادران کو اپنی زیادہ پھرتیاں دکھانے والوں نے تو ٹانگیں ٹوڑنے کی باتیں بھی کرنا شروع کردی ان مخالفانہ بیانات کو سنتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی رد عمل دینا شروع کردیاکسی طرف سے ڈنڈوں کو تیل لگانے کی خبریں آنے لگی تو کسی طرف سے چھریاں اور چاقو بھی تیز ہوتے نظر آنے لگے اور تحریک انصاف کے لیڈروں کی طرف سے مذمتی بیانات بھی شہہ سرخیوں کا حصہ بننے لگے مگر مسلم لیگ ن کی طرف سے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے مختلف پیغامات کے ساتھ جو لقب عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے استعمال کیے وہ عوامی طور پر بہت مقبول ہوئے جسے شیخ رشید احمدمختلف مقامات پر بار بار دھراتے بھی رہے یہ وقوعہ اس وقت پیش آیا جب مسلم لیگ ن کے مذکورہ سیاستدان نے ڈنڈوں کے سائے میں یہ فرمایا کہ ہم رائے ونڈ میں احتجاج کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دینگے ان کی اس دھمکی پر عوامی مسلم لیگ کے قائد نے انہیں تتھا بدمعاش کا لقب عطا کردیا جو انہوں نے کئی بار مختلف پروگراموں میں بھی دھرایا اور پھر رائے ونڈ کے جلسہ میں بھی تتھے بدمعاش کا ذکر چل نکلا ۔
PTI
پاکستان تحریک انصاف کے رائے ونڈجلسہ اور اس سے قبل تمام ہونے والے احتجاجوں سے پہلے حکومت کی طرف ٹانگ اڑانے کی کوشش ضرور کی گئی مگر عمران خان نے کسی رکاوٹ کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے انہی مقامات پر جلسے کیے اس لیے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ دھمکیوں کی سیاست کو اب ختم کردیں کیونکہ جمہوری حکومتوں میں احتجاج ہوتے رہتے ہیں اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے اگر جلسے جلوس اور احتجاج نہیں ہونگے تو لوگوں کو انکا حق کیسے ملے کیونکہ پاکستان میں سیاستدانوں کی اکثریت نے قومی دولت کو لوٹ کا مال سمجھ رکھا ہے جو بھی برسراقتدار آیا اسی نے حکومتی خزانہ پر ہاتھ صاف کردیا کسی نے سوئس بنکوں میں غریب عوام کا پیسہ جمع کروایا تو کسی نے آف شور کمپنیوں میں لوٹ مار کی رقم سے اندھیر نگری مچادی ۔عوام کی خدمت کے نام پراقتدار میں آنے والوں نے نہ صرف کھل کر لوٹ مارکی بلکہ قومی اداروں میں کام کرنے والوں کو بھی کرپشن پر لگا دیا اپنے مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے چھوٹے گریڈ کے افسران کو اعلی عہدوں پرتعینات کردیاجنہیں صرف جی سر کے علاوہ اور کوئی لفظ بولنا نہیں آتاجبکہ چھوٹے گریڈ کا افسر اپنی لوٹ مار اور نوکری بچانے کے لیے حکمرانوں کے تمام احکامات پر عمل کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا۔
ایسے جونیئر افسران کی اعلی عہدوں پر تعیناتیوں سے نہ صرف متعلقہ محکمہ کے افسران میں بدلی پھیلتی ہے بلکہ وہاں پر بیٹھے ہوئے کرپٹ اورنااہل اہلکاروں کو مزید لوٹ مارکرنے کا وسیع موقعہ مل جاتا ہے اس طرح نہ صرف محکمے کی کاکردگی ختم ہوجاتی ہے بلکہ سفارش اور رشوت کا جو بازار گرم کیا جاتا ہے وہ آنے والے دنوں میں بہت سی خرابیاں پیدا کرتا ہے اور یہی نظام آگے چل کر ملک کی جڑوں کو کمزورکرتا ہے جس طرح موجودہ حکمرانوں کے ساتھ تتھے بدمعاش پیوستہ ہیں اسی طرح سرکاری محکموں میں بھی تتھے بدمعاش موجود ہیں جو تنخواہ تو غریب عوام کے ٹیکسوں سے لیتے ہیں مگر خدمت گار حکمرانوں کے بنے ہوئے ہیں ہماری پولیس عوام کے ووٹوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کی حفاظت میں مصروف ہے اوررہی بات عوام کی وہ آج بھی جدید ٹیکنالوجی سے صدیو ں دور ہے ہمارے دیہات میں ہسپتال ہیں نہ سکول ہیں اور نہ ہی سڑکیں ہیں غریب عوام قیام پاکستان سے پہلے کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جبکہ حکمرانوں نے اس ملک کو اپنی جاگیراور عوام کو رعایا سمجھ کر بادشاہی اختیار کررکھی باپ کے بعد بیٹا حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے اور اسی خواب نے ملک میں لوٹ مار کا کلچر پروان چڑھا رکھا ہے ہمارے کلرک بابواس وقت تک کسی فائل کو ہاتھ نہیں لگاتے جب تک انہیں رشوت نہ دی جائے یا پھر کوئی تگڑی قسم کی سفارش کا ڈنڈا ان کے سر پر نہ مارا جائے۔
Government Hospitals
ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں آج بھی انسانوں سے جانوروں جیسا سلوک کیا جارہا ہے انسان اپنی ایک بیماری کا علاج کروانے ہسپتال جاتا ہے تو اپنے ساتھ اور بہت سی بیماریاں لیکر واپس آجاتا ہے ادویات کی کمپنیوں نے الگ سے لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا ہے غریب مریض اپنے علاج پر اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے مگر صحت یاب پھر بھی نہیں ہوپاتااور آخر کار اپنے بچوں کو مقروض چھوڑ کر اس دنیا سے کوچ کرجاتا ہے ہمارے سابق اور موجودہ حکمرانوں نے عوام کو صرف زندگی کے رنگین خواب دکھا کر بیوقوف بنایا ہوا ہے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا ایسا نعرہ دیا کہ غریب عوام سمجھی کہ شائد انہیں بھی کوئی ڈھنگ کی زندگی گذارنے کا موقعہ ملے گا۔
مگر کیا معلوم تھا کہ روٹی کی بجائے بے روزگاری ملے گی کپڑے کی جگہ کفن ملے گا اور مکان کی جگہ قبرستان میں مل جائیگی یہی کچھ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے بھی ہم سے کیا ہمیں تعلیم تو مل گئی مگر شعور نہ آسکا ہم اپنی ضرورتوں کے لیے ایسے ڈاکوؤں کے محتاج ہیں جنہوں نے ہمارا ہی خون چوسا ہوا ہے ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی غلامی کی دلد ل میں دھنسے ہوئے ہیں اور ہمارے سیاستدان اپنی سیاسی بصیرت سے ہمیں مزید اس دلدل میں دھنسا رہے ہیں اور اس کام پر بہت سے تتھے بدمعاش تعینات ہیں جوہر حال میں ہر حکمران کے قدموں کی جوتی بن جاتے ہیں اور پھر حکمران اسی جوتی کی ٹھوکر پر عوام کو رکھتے ہیں۔