اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب ہر وہ قدم اٹھائے گا جو ملک کے مفاد میں ہو گا، نہ پہلے کبھی اثر و رسوخ کی پرواہ کی اور نہ آئندہ کریں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ موجودہ معاشی بحران حکومتی بحران نہیں بلکہ یہ قومی بحران ہے، جب قومی بحران ہو تو ہر شخص کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کی زبوں حالی میں نیب کا کوئی عمل دخل نہیں، چند دنوں سے باتیں ہورہی تھی کہ اس کا ذمہ دار نیب ہے، اس معاملے کو سیاسی نہ بنائیں، مثبت تنقید کریں اس کا ہمیشہ خیرمقدم کیا ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ آج تک کسی ایک بھی بزنس مین کی ٹیلیگراف ٹرانسفر (ٹی ٹی) میں مداخلت نہیں کی، پبلک آفس ہولڈر سے اگر یہ سوال کیا جارہا ہے ان کے کروڑوں روپے کیسے ملک سے باہر جارہے ہیں اور ان کے پاس کروڑوں روپے کیسے آرہے ہیں تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نیب ان سے پوچھنے میں حق بجانب ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، ملک کو ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے، جو ملک کے مفاد میں ہوگا وہ کیا جائے گا، نیب کی وابستگی ریاست کے ساتھ ہے حکومت کے ساتھ نہیں، وہ دن گزر گئے جب پوچھ گچھ نہیں تھی، حکومت سے ڈکٹیشن لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہا جاتا ہے پبلک کے نمائندوں کے خلاف صحیح انکوائری نہیں ہوتی، جنہیں پکڑا جاتا ہے ان سے تفتیش کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہفتوں کوشش کی جاتی ہے، کبھی اجلاس بلالیا جاتا ہے اور کبھی کمیٹیوں کی میٹنگز ہوتی ہیں، احتساب کی وجہ سے کبھی جمہوریت خطرے میں نہیں آتی، جمہوریت اعمال کی وجہ سے خطرے میں آتی ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا ہوا ہے جس میں منی لانڈرنگ بھی وجہ ہے، جب پاکستان کا مسئلہ عالمی سطح پر ہوگا تو نیب ان چند لوگوں کی پرواہ نہیں کرے گا، الزام تراشی اپنی جگہ لیکن ملک کا مفاد اپنی جگہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب ملکی مفاد کو ترجیح دے گا، گرے لسٹ سے پاکستان کو نکلوانا ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج درست کرنا ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ اگر نیب کے حکومت کے ساتھ اتنے ہی دوستانہ مراسم ہوتے تو حکومت سے بجٹ منظور کرانے میں کیوں مشکل درپیش آتی، ایک طرف وہ لوگ جو نیب کے ریڈار پر ہیں، ان کے وکلا کی فیسیں کروڑوں میں ہے اور ہمارے نیب پراسیکیوٹر لاکھ، دو لاکھ روپے لے رہے ہیں۔