جس ملک کی اشرافیہ اور اقتدار ی طبقہ امریکی انتظامیہ کے زیرِ اثر ہو اس ملک کی بے بسی کا اندازہ لگانا چند اں دشوار نہیں ہونا چائیے ۔امریکی مداخلت کی انتہا یہ ہے کہ کئی وزرائے اعظم بلا واسطہ امریکہ سے در آمد ( ایمپورٹ) ہوئے اور اپنی مدت پوری کرنے کے بعد سیدھے امریکہ سدھارے ۔کتنے پردہ نشین امریکی پیرول پر ہیں یہ خفیہ اداروں کی رپورٹوں سے بخوبی پتہ چل سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہماری صفوں میں ایسی کئی کالی بھڑیں ہیں جو امریکی خوشنودی کی خاطر دھرتی ماں سے بے وفائی کا ارتکاب کرتی ہیں اور ملکی راز وں کاسودا کرتی ہیں۔ (غداروں کی کمی نہیں غالب ایک ڈھونڈ و ہزار ملتے ہیں) ذاتی مفادات کی خاطرملکی مفادات کا سودا کرنے والے وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں قدم قدم پر ایسے کئی افراد ملیں گے جو ذاتی مفادات کی خاطر جاسوسی جیسا مکروہ دھندا کرنے سے نہیں چوکتے ۔لیکن اسی مٹی پر ایسے با جرات افراد بھی ہیں جو ملکی وقار کی خاطر ڈٹ جاتے ہیں اور جھکنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ ایسے افراد امریکہ کو کبھی پسند نہیں آتے کیونکہ طاقتور کے سامنے ذاتی رائے دینے کا کسی کو حق تفویض نہیں کیا ہوتا کیونکہ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوںہی بنیادی اصول قرار پاتا ہے ۔ کوئی ایسی آواز جو امریکی سپر میسی کے مائنڈ سیٹ کے خلاف اٹھتی ہے ا سکا ایسا حشر کیا جاتا ہے کہ دوسرے سہم کر دبک جاتے ہیں ۔امریکی انتقام سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
ذولفقار علی بھٹو کو امریکہ نے جس طرح عبرت کا نمونہ بنایا وہ بڑا بھیانک تھا لہذا اس کے بعد کسی میں اتنی ہمت نہیں رہی کہ وہ امریکہ کو للکارے اور اس کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت کرے۔دوسری سیاسی جماعتوں کو تو ایک طرف رکھ دیجئے خود پی پی پی بھی امریکی مخالفت سے تائب ہو چکی ہے کیونکہ اس نے جو کچھ بھگتا تھا اس کے بعدامریکی دشمنی کی کہیں کوئی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ آصف علی زرداری تو ویسے بھی مفاہمت کے بادشاہ کہلاتے ہیں لہذا ان کے دور میں امریکی دشمنی کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔وہ تو سب سے مفاہمانہ رویہ رکھنے کے قائل تھے لہذا امریکہ جیسی سپر پاور کے ساتھ وہ مخاصمت کی راہ کیوں اپناتے؟ ویسے بھی پاکستان میں اسلام آباد کاراستہ امریکہ سے ہو کر ہی گزرتا ہے ۔جس سے امریکہ نا راض ہو جائے اس کی حکومت کا قائم رہنا ممکن نہیں ہوتا ۔ پی پی پی کی پہلی اور دوسری حکومت کی بر طر فیوں میں امریکی رائے کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی حکومتوں کا قیام امریکی آشیرواد کے بغیر نا ممکن تھا ۔ امریکہ نے جب محسوس کیا کہ ان دونوں جرنیلوں کی ضرور ت باقی نہیں رہی تو انھیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا۔میری ذاتی رائے میں ہمیں امریکی دشمنی سے خود کو دور رکھنا ہو گا کیونکہ یہ راستہ ہماری تباہی کا راستہ ہے۔لیکن اس کا کہیں یہ مطلب نہیں کہ ہم حق کو حق کہنے سے فرار اختیار کر جائیں۔حق کو حق کہنے ہی میں قوم کی حیات مضمر ہے اور ہمیں قومی حیات کا اصول زندہ رکھنا ہے ۔
ہم بھلے ہی امریکی سوچ سے اختلاف کریں لیکن کھل کر اس سفید ہاتھی کو چیلنج کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس سے سب کچھ تہس نہس ہو جائے گا ۔ہمیں ڈائیلاگ سے باوقار،با عزت درمیانہ راستہ تراشنا ہو گا تا کہ عزتِ سادات محفوظ ہو جائے ۔ امریکہ جب کبھی پاکستان کو نیچا دکھانا چاہتا ہے تو وہ کیری لوگر بل نکال لیتا ہے ۔وہ پریسلر ترمیم کاسہارا لے لیتا ہے اور یوں ہم بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں ۔ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے ہمارے مالی معاملات کافی کمزور ہیں اور ہمیں اپنے میگا پراجیکٹ کی خاطر امریکہ جیسے ملک کی پشت پناہی اور مالی معاونت کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے ۔چین نے اس خلیج کو کسی حد تک پاٹنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہم امریکی گرفت سے آزاد نہیں ہو سکے کیونکہ امریکہ کے پاس جس طرح کی جدید ٹیکنالوجی ہے دنیا کے کسی ملک کے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے لہذا ہر ملک امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہتا ہے۔،۔
ساری دنیا کو علم ہے کہ دھشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے اربوں ڈالر خرچ کئے اور ہزاروں جانوں کا نذ رانہ دیا تب کہیں جا کر دھشت گردی کو شکست ہوئی۔ایسی با جرات جنگ پاک فوج کی جراتوں کی امین ہے لیکن اس کے باوجود افغان جنگ،چین کا بڑھتا ہوا معاشی پھیلائو ،سی پیک اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم ہمیں امریکی بلاک سے دور کر رہے ہیں جبکہ بھارت امریکہ کے ساتھ ساتھ روس سے بھی اپنے تعلقات کو کمزور نہیں ہونے دے رہا۔اس نے حال ہی میں روس سے کئی ارب ڈالر کے نئے معاہدے کئے ہیں جو اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ بھارت جنوبی ایشیا میں روسی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے۔ وہ افغانستان اور ایران کے بھی قریب ہے جبکہ ہمیں مسلم ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم رکھنے میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ افغانی جنگ امریکہ کیلئے دردِ سر بنی ہوئی ہے وہ اس خطے سے با عزت نکلنا چاہتا ہے لیکن کیسے؟اس کیلئے اسے پاکستانی تعاو ن کی ضرورت ہے تا کہ افغان مسئلے کو خوش اسلوبی سے طے کر لیا جائے۔وہ اپنی پسند کا نیا معاہدہ چاہتا ہے۔
پاکستان کے افغان طالبان سے قریبی روابط ہیں لہذا امریکہ ان تعلقات کو کیش کروانا چاہتا ہے لیکن پاکستا ن اس ذمہ داری سے پہلو تہی کر رہا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اپنا دبائو بڑھا رہا ہے۔امریکی قیادت اور بھارتی قیادت کی قربتیں پاکستان کیلئے نئے مسائل کھڑے کر رہی ہیں اس لئے پاکستان بھی اپنی اہمیت کا احساس دلوانا چاہتا ہے ۔پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کی یہ کوشش تھی کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا جائے لیکن بھارتی ہٹ دھرمی کے سامنے یہ ساری کوششیں نقش بر آب ثابت ہوئیں۔بھارت ہم سے طاقت کی زبان میں گفتگو کرنا چاہتا ہے جو ہمیں قبول نہیں ہے لہذا دونوں مما لک کے درمیان تنائو کی کیفیت بدستور قائم ہے۔پاکستان امن کی کوششیں کر رہا ہے لہکن بھارت اپنی طاقت کے زعم میں ایسی کسی بھی کوشش کو ثمر بار نہیں ہونے دینا چاہتا کیونکہ بھارت کے اگلے سال کے انتخابات بھارتی قیادت کے راستے کی دیوار بنے ہو ئے ہیں ۔ بھارتی قیادت کیلئے مجبوری کی اس زنجیر سے بچنا ممکن نہیں ہے۔اسی لئے بھارت گاہے بگاہے ہماری سرحدوں پر شرانگیزی سے باز نہیں آتا۔وہ ہماری سرحدوں پر آگ برساتا رہتا ہے تا کہ جنگی ماحول پیدا ہو جائے جسے نریندر مودی اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔
ایک طرف ہماری سرحدوں کی یہ حالت ہے تو دوسری طرف امریکہ ہماری مالی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے۔وہ آئی ایم ایف سے ہمارے قرضے کی درخواست کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے ۔اس کی نظر یں سی پیک پر جمی ہوئی ہیں جسے وہ ہر حالت میں ناکام بنانا چاہتا ہے ۔ چین بھی اس نئی ڈویلپمنٹ سے بخوبی آگاہ ہے لیکن وہ بے بس ہے۔پاکستان اور چین میں ذہنی سطح پر یکسوئی کمزور ہو رہی ہے ۔پاکستان اپنی پتلی مالی حالت کے پیشِ نظر سی پیک میں تبدیلیاں چاہتا ہے جس سے اس منصوبے کی پوری ہئیت ہی بدل جائیگی۔پی ٹی آئی کی حکومت تو اس منصوبے کو وقتی طور پر معطل کرنا چاہتی ہے تا کہ اسے سانس لینے کا موقع مل جائے لیکن فی الحال وہ اس طرح کا دو ٹوک فیصلہ کرنے سے گریز کر رہی ہے کیونکہ عوام ا س طرح کے فیصلے کو پسنددیدگی کی نظر سے نہیں دیکھیں گے ۔ چینی قیادت ذہنی طور پر عدمِ تحفظ کا شکار ہے۔وہ پاکستانی قیادت کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس میں اسے کامیابی نہیں ہو رہی ۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے معاملات تب ہی فٹ بیٹھیں گے جب ہم امریکی خوشنودی کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے۔یہ اعصاب کی جنگ ہے جو کچھ دن اور چلے گی ۔نئی حکومت ابھی تک گو مگو کی کیفیت میں ہے جبکہ وزیرِ خزانہ اسد عمر کے بیان سے مترشح ہو رہا ہے کہ وہ امریکی ڈکٹیشن کے ساتھ جانے کو ترجیح دیں گے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے سے ہی ملک کو پٹری پر ڈالا جا سکتا ہے۔دیوالیہ پن سامنے کھڑا ہے لہذا حکومت کو جلدی فیصلہ کرنا ہو گا۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال