تحریر : حفیظ خٹک وہ میرے پاس آئی اور کہا کہ میں نے اپنی جیب خرچی میں بچائے اور پیسوں کو بچانے کا مقصد یہ ہے کہ قربانی والی عید آنے والی ہے اور اس عید پر سب جانوروں کی قربانی کر کے سنت ابراہیم علیہ سلام پر عمل کرتے ہیں تو اس سال میں نے اپنی ماں کی یاد میں، ان کی قید سے جلد رہائی کیلئے دعا ئیں اور کوششیں تو جاری ہیں تاہم ان کی جانب سے قربانی میں کرونگی اس لئے آپ میرے جمع شدہ یہ پیسے لے لیں اور ان سے قربانی کریں۔ یہ آخری جملہ کہتے ہوئے اس نے اپنی مٹھیوں میں دبائے ہوئے پیسے نکالے اور میرے سامنے کر دیئے ۔ اس کے بعد اس کی نگاہ جھکی رہی اور اس لمحے کی منتظر رہی کہ کب میں اس کی بات پر عملدرآمد کرتی ہوں ۔ یہ باتیں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے آنکھوں کی نما کو دباتے ہوئے بتائی اور اس کے بعد انہوں نے آسمان کی جانب دیکھا ۔۔۔۔
ہاں یہ وہی مریم ہے کہ جسے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی مریم سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ میری مریم کی طرح ہے،اس ماں کیلئے جو میری بیٹی اور بہن کی طرح ہے اور اس قوم کی بیٹی ہے ،اسے باعزت رہائی دلواﺅنگا۔اب کی بار جب امریکہ جاﺅنگا تو امریکی صدر سے عافیہ کی باعزت جلد رہائی کی نہ صرف بات کرونگا بلکہ اسے ساتھ لے کر آﺅنگا۔
لیکن وہ وعدہ ہی کیا جووفا ہوجائے، وزیر اعظم ایک بار نہیں بلکہ متعدد بار وہاں گئے لیکن انہوں نے ایک بار بھی اپنے وعدے کو پورانہیں کیا۔سپریم کورٹ نے تو پانامہ لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے بعد اسے نااہل قرار دے کر فارغ کردیاجس پر وہ اب تک عوام کے سامنے خطاب کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ مجھے بتاﺅ کہ مجھے کیوں نکالا۔ وہ نااہل وزیراعظم یہ بھی سوچے اور تصورکرئے کہ جب وہ مریم نواز کے سامنے نہیں بلکہ مریم صدیقی کے سامنے جائیگا تو وہ بھی اسے پوچھے گی کہ مجھ وعدہ کر کے پورا کیوں نہیں کیا؟ میری ماں کو کون لائیگا، کون رہائی دلواکر اسے باعزت انداز میں مادر وطن لے کر آئیگا۔کون کرے گا یہ کام؟ کون کرے گا؟
سوچئے نواز شریف صاحب، سابق وزیراعظم پاکستان شہر قائد کی بیٹی اور اس ملک کی بیٹی کے متعلق جب آپ سے یہ سوال کرئے گی تو آپ کیا جواب دیںگے؟ آپ اور آپ کی پوری حکومت، پوری سیاسی جماعت کہ جس کے موجودہ وزیر اعظم ابھی تک یہی کہتے ہیں کہ وزیراعظم تو اب بھی نواز شریف ہیں، ان ہی سے یہ سوال اس وقت یہ قلم کار نہیں، عافیہ کی بیٹی مریم نہیں اس کا بیٹا محمد نہیںبلکہ پوری قوم یہ سوال کرتی ہے کہ وزیراعظم صاحب آپ کے رہنما، آپ کے سردار آپ کی جماعت کے صدر نواز شریف نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ قوم کی بیٹی کو جلد باعزت رہائی دلواکر واپس لائیں گے لیکن انہوں نے اپنی مدت صدارت میں یہ وعدہ پورا نہیںکیااب آپ بتائیں عافیہ صدیقی آپ کی بہن ہے، آپ کی بیٹی ہے آپ کب انہیں رہائی دلوائیں گے؟ آپ نواز شریف کے وعدے کو کب پورا کریں گے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ، مریم کی ساری بات بتا کر چلی گئیں لیکن ان لمحوں میں کیفیت کچھ اس طرح سے تھی کہ جیسے وقت رک سا گیا ہے، گھڑی کی سوئی ٹہر گئی ہو، آسمان پر بادلوں کا سفر رک گیا، زمین پر انسانوں سمیت تما چرنف و پرند ساکت ہوگئے ہوں، مریم کا معصومانہ سوال نہ تھا ہاں اس کے جذبات معصومانہ ضرور تھے۔ان احساسات و جذبات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور سمجھ آجانے کے بعد قدم بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، تحریک انصاف کا چیئرمین عمران خان یہ کہتاہے کہ انسان کا کام کوشش کرنا ہے اور اس کوشش کو کامیاب کرنا اللہ کا کام ہے لہذا ان احساسات و جذبات کو سمجھ لینے کے بعد اقدام کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے کچھ نہ کیا وعدے کر بھول گئے ان سے پہلے زرداری صدر تھے انہوں نے بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے کوئی راست اقدام نہیں کیا، انہیں ایک جانب رکھ کر یہ دیکھا جائے کہ موجودوزیر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری تک نے تو ابھی تک ڈاکٹر عافیہ کا کہیں بھی نام تک نہیں لیا۔ نئی انداز میں سیاست کا آغاز کرکے اپنی ماں شہید بےنظیر بھٹو کا نام تو وہ بارہا لیتا اور جذباتی ہوتا ہے لیکن ان سمیت ان کی بہنوں تک کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بیٹے محمد اور مریم کا اب تلک کوئی احساس نہیں ہوا۔وہ لوگ لیاری تو جاسکتے ہیں لیکن ایک بار قوم کی بیٹی کے گھر اس کے بچوں اور بوڑھی ماں سے ملنے نہیں جاسکتے۔ آخر کیوں؟
سابق صدر آصف علی زرداری یہ کہتے ہیں کہ میں نے کہہ دیا تھا کہ میں 4سال تک کوئی سیاست نہیں کرونگا لیکن اس کے بعد سیاست کرونگا اور اب میں اپنے انداز میں سیاست کرونگا۔سابق صدر پاکستان محترم آصف علی زرداری کو چاہئے کہ وہ اپنے نئے طرز ساست میں اپنے بچوں کو یہ سیکھائیں کہ اسی سیاسیت میں خدمت بھی ایک شعبہ ہوتا ہے اس کیلئے انسان کے اندر جذبات و احساسات کو سمجھنے اور انسانیت کی خدمت کرنے کیلئے مظلوموں کی داد درسی کرنی چاہئے اور اس وقت انہیں چاہئے کہ وہ اپنے بیٹے کو بلاول کو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے گھر جانے اور ملاقات کرنے کا حکم دیں۔ اس طرح سے ہی سہی مریم کی ان کے بھائی محمد کی کچھ تو ہمت بڑھے گی۔ ان کے معصوم چہروں پر اطمینان کے کچھ پل تو آئیں گے نا کہ اس ملک پر تین بار حکمرانی کرنے والی جماعت کے چیئرمین کو بھی یہ احساس ہے کہ ان کی ہم وطن امریکہ میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں اور مسقتبل میں جب بھی انہیں موقع ملے گا تو وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہائی دلوانے کیلئے اپنی پوری کوشش کرینگے۔
نواز شریف کی مریم یہ عید بھی اپنے گھر میں اطمینان و سکون سے منائینگی لیکن عافیہ کی مریم اور محمد اس بار کی عید بھی اپنی ماں کے بغیر منائیںگے۔پردیسیوں سے پوچھا جائے کہ دوران مسافرت آپ کو اپنے کب بہت زیادہ یاد آتے ہیں تو ان جواب یہی ہوتا ہے کہ اپنے کی عید اول تو دل سے جاتی ہی نہیں لیکن عید کے دن ان کی یاد اور اس دوران ہماری کیفیات ناقابل بیان ہوتی ہیں ۔ہم اس روز اللہ سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ ذات عظیم تو کسی کو بھی عید کے دن اپنوں سے جدا نہ رکھنا۔
مریم کی جمع کئے گئے پیسوں سے قربانی کا جانور قربان ہوجائیگا اسے اپنے اس اقدام سے سکون و اطمینان ہوگا لیکن اس دوران بھی اس کی اور اس کے بھائی کی ، ان کی نانی جان ، ان کی خالہ ڈاکٹرفوزیہ صدیقی کی ان کے بچوں کی اور ان سمیت تمام رضاکاروں کی کیفیات عجب ہونگی سبھی کے لبوں پر یہ دعائیں ہونگی کہ اللہ رب العزت ، ہمارے حکمران وعدہ خلاف ہیں ، سیاسی جماعتیں خاموش ہیں ، اب ہمیں کسی سے بھی کوئی امید نہیں اور ساری امیدیں تجھ سے ہیں ، بس تو ہی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو باعزت رہائی دلواکر باعزت انداز میں وطن پہنچا دے۔ امین