تحریر: حفیظ خٹک دنیائے تاریخ کی اکیسویں صدی کے اس دور میں کہ جب لفظ ترقی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے اور وقت اک سر پٹ گھوڑے کی مانند اپنے انجام کی جانب بڑھ رہاہے۔ ایسے عالم میں دیر پہلے کی بات، قصہ، حادثہ یا پھر سانحہ یاد نہیں رہ پاتا۔صرف چند لمحے کچھ دیئے جلا کر رسمی سی خاموشی اختیار کرکے حضرت انسان آگے بڑھ جاتا ہے۔ایسی صورتحا ل میں یہ چند لمحوں، دنوں، مہینوں یا پھر سالوں کی بات نہیں بلکہ یہ طویل اور صبر آزما 12 برسوں پر محیط ایک ایسی کہانی ہے کہ جوابھی تک جاری ہے۔اس کا انجام کیا ہو گا یہ بات تو اوپر والا ہی بہتر جانتا ہے۔
تاہم یہ 12 برس اس بوڑھی اور بیمار ماں پر کیسے گذرے جو اپنی مظلوم بیٹی کی راہ تکتے تکے تھک گئی ہے، ان بچوں نے کیسے گذارے جن کی ماں سات سمندر پار جیل کی اک کال کوٹھری میں بند آسماں کی جانب سے اس امید سے دیکھے جارہی ہیں کہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں سے نہیں صرف اللہ ہی کی ذات سے امید ہے کہ اب توو ہی کوئی راستہ نکال کر اس جیل سے رہائی دلوائے تو ٹھیک ورنہ اسلام کے نام پر بننے واکے پاکستان اور اس میں بسنے والی 18 کڑور سے زائد عوام اور اس سے بھی بڑھ کر اس پاکستان کے بے حس حکمران ، سبھی مجھے بھلا چکے ہیں۔وہ مظلوم آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے اپنے تینوں بچوں جن میں سے ایک تاحال لاپتہ ہے انہیں یاد کرکے کس قدر تڑپتی ہوگی اور اس کے دونوں بچے احمد اور مریم اس کی کمی کو کس قدر محسوس کرتے ہونگے۔اس بات کا اندازہ اہل حس ہی کر سکتے ہیں۔ اس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو نا کردہ گناہوں کی86 برسوں پر محیط سزا کے ایام جاری ہیں۔ وہ کب ختم ہونگے ، یا ختم ہونے سے پہلے ہی کوئی معجزہ ہوجائیگا اور وہ باعزت رہاہوکر اپنوں میں آجائیں گی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے۔
America
عافیہ کو اپنوں سے بچھڑے12 برس ہوگئے ہیں ان12 برسوں کے ابتدائی 5 برس پراسرار خاموشی کے بعد گذشتہ 7 برس عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اپنی بہن جوکہ اب صرف انکی ہی بہن نہیں رہیں بلکہ اس قوم کی بیٹی بن چکی ہیں اس قوم کی بیٹی کو رہائی دلوانے کیلئے اپنا سب کچھ دائو پر لگا چکی ہیں . برسوں سے وہ اس جدوجہد کو آگے بڑھائے جارہی ہیں۔عافیہ کی تلاش کیلئے جب وہ کمر بستہ ہوئیں تو اس وقت ان کے اندر خوف نمایاں تھا لیکن جوں جوں وہ آگے بڑھیں نہ صرف وہ خوف ختم ہوا بلکہ ان کا یقین بڑھتا رہا ۔ اس طویل جدوجہد کے دوران انہوں نے ملک کی سبھی سیاسی ، مذہبی ، سماجی ، معاشرتی، قومی ، لسانی جماعتوں کے قائدین سمیت دیگر شعبہ زندگی کے ممتازشخصیات اور حکومتی اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں۔ انہیں اپنی بہن کی رہائی کیلئے پکارا۔پاکستان سے باہر بھی متعدد ممالک گئیں ، انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطے کر کے سب کی توجہ ڈاکٹر عافیہ کی جانب مبذول کرائی۔اس طویل جدوجہد میں انہیں کامیابیاں اور ناکامیاں دونوں ہیں ملیں۔ ان کے گھر کے 4 افراد 5 برس تک لاپتہ رہے ، اس جدوجہد کے بعد آج ان میں سے دو افراد ان کے پاس موجود ہیں ، ایک کا تاحال پتہ نہیں جبکہ عافیہ امریکی قید میں ہیں۔جن کی باعزت رہائی کی لئے وہ اب بھی سرگرم عمل ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکی قید سے نجات دلوانے کیلئے پہلا قومی جرگہ بلانے کا فیصلہ کیا ۔ مزار قائد پر اتوار 8 فروری کو ہونے والے اس قومی جرگہ میں وہ اہل کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں کی عوام کے شرکت کی متمنی ہیں۔ اس جرگہ کیلئے وہ اور انکی پوری ٹیم کئی دنوں سے سخت محنت کر رہی ہیں۔عافیہ کی رہائی ہر پاکستانی چاہتا ہے ، وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے دیگر سبھی اکابرین عافیہ کو رہائی دلوانے کا اعادہ کرچکے ہیں۔گذشتہ دورہ امریکہ سے قبل بھی وزیر اعظم نے عافیہ اہل خانہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی صدر سے عافیہ کے معاملے پر بات کرینگے۔لیکن نجانے ایسا کیا ہوا کہ وہ امریکہ جاکر امریکی صدر کے سامنے عافیہ کا معاملہ اٹھانے سے قاصر رہے۔سابق امریکی قانون دان یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ سے عافیہ کی رہائی مخص ایک خط کی دوری پر ہے لیکن وہ کیا وجوہات ہیں جن کے سبب ہماری حکومتوں نے آج تک ایک خط نہیں لکھا۔ سابقہ حکومت میں وزیر داخلہ عبد الرحمن ملک ڈاکٹر فوزیہ کو تسلی دیتے رہے اس دور حکومت میں یہ کام نواز شریف اور چوہدری نثار سر انجام دے رہے ہیں۔ عافیہ کو واپس لانے کے لفظی دعوے بہت کئے گئے تاہم آج تک کوئی عملی اقدام نہیں اٹھا یا گیا۔
قوم کی بیٹی کو رہائی دلوانے کیلئے تمام ہی شعبہ زندگی سے وابستہ منتخب افراد پر مشتمل پہلا قومی جرگہ اس امید کے ساتھ منعقد ہونے جارہا ہے کہ جرگہ حکومت کو عافیہ کی رہائی کیلئے انہتائی قدم پر مجبور کردیگا۔جمعہ کے روز ڈاکٹر فوزیہ نے اک پر ہجوم پریس کانفرنس میں جرگہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے عوام سے بھر پور شرکت کرنے کی اپیل کی۔انہوں نے بتایا کہ ملک کے دیگر علاقوں سے بڑی تعدا د میں شرکت کیلئے عوام نے یاد دہانی کرائی ہے۔
Dr Aafia Siddiqui
اتوار کے روز منعقد ہونے والے اس قومی جرگہ میں اندرون ملک سے شہر قائد کا رخ کر رہے ہیںاس موقع پر اہل شہر کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس روز اپنے تمام کاموں کو ایک جانب رکھ کر اس قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے مزار قائد پہنچیں اور ڈاکٹر فوزیہ سمیت جرگہ کے سبھی شرکاء پر یہ بات واضح کردیں کہ اہل کراچی قوم کی بیٹی کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کہیں بھی جاسکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی منعقد ہونے والا یہ قومی جرگہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ اپنے فیصلوں پر حکومت سے عملدرآمد کو یقینی بنائیگی کیونکہ قوم اب اپنی بیٹی کو اپنے درمیان دیکھنا چاہتی ہے۔