تحریر: سائرہ خان بابر ایک تعلیم یافتہ اور باشعور عورت ایک سُلجھی ہوئی نسل کی بنیاد رکھتی ہے قدرت نے عورت میں ایک ایسی طلسماتی قوت چھپا رکھی ہے جو اس کو صنف نازک ہوتے ہوئے بھی بوقت ضرورت مردانہ وار لڑنے کی طاقت عطاء کرتی ہے سائنسی لحاظ سے مرد سے کم وزن دماغ رکھنے والی اس کو استعمال کرنے کا ایسا ہنر جانتی ہے کہ بڑے بڑے سیانے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔مشکل وقت کا مقابلہ کرنے کا سوچ لے تو چومکھی لڑسکتی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہاں تو زمین و آسمان کے قلابے ملانے جارہے ہیں جبکہ حقیقت میں خواتین کی بے وقوفیوں پہ مبنی لطیفے عام ہیں پھر ایسی قابل خواتین کہاں ہوتی ہیں؟
محترم قارئین۔۔۔! کسی بھی قوم کو زیر کرنے کے لیے اس کے نوجوانوں اور خواتین کے اعتماد پہ ضرب ہی کافی ثابت ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن خواتین کی ٹیلنٹ سے فائدہ اُٹھانا چاہیے تھا ان پر بے جا تنقید کرکے ان کے اعتماد کو نقصان پہنچایا جارہا ہے جس سے ان کی صلاحیتوںپر اثر پڑجاتاہے اور اس سازش کے باوجود اگر ہمیں کہیں ایسی خواتین نظر آئیں جو حوصلے اور جراء ت کی مثال بن جائیں تو سمجھ لیں کہ اس قوم پہ اللہ مہربان ہے۔ بہت سی خواتین نامساعد حالات کی مُنہ زور لہروں پہ اپنے خوابوں کی کشتی آگے بڑھائے جا رہی ہیں۔
مگر آج میں خاص طور پہ دو خواتین کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں جو تمام خواتین اور پوری قوم کے لیے مشعل راہ ہے ۔ ان میں سے ایک باپردہ ڈاکٹر شہلا کاکڑ جنہوں نے کوئٹہ میں 8 اگست 2016 کووکلا پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد زخمیوں کو ہسپتال پہنچنے کا انتظار نہیں کیا اور جہاں سارے لوگ بھاگ کے اپنی جان بچانے کے چکر میں پڑے رہیں مگر باہمت، باحوصلہ اور اپنی پیشے سے مُخلص ڈاکٹر شہلا کاکڑ نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ہی بے سروسامانی اور افراتفری کے باوجود جائے حادثہ پر پہنچ کر طبی امداد بہم پہنچاتی رہی اس دوران بے سروسامانی اور افراتفری میں ہر میسر چیز کو طبی امداد کے لیے استعمال کیا وکیلوں کی ٹائیوں اور کوٹ کو پٹیاں بنا کرخون روکنے کے لیے استعمال کیا۔
زخمیوں کے رشتہ داروںنے بھی اپنی چادروں کی پٹیاںبنا کر پیش کردی۔ ان کا یہ کارنامہ دیکھ کر مجھے احدکی وہ صحابہ اُم عمارہ یاد آگئیں جو کبھی تلوار اُٹھا کر نبی پاک ۖ کی حفاظت کرتی تھیں تو کبھی زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور کبھی پاسون کو پانی پلاتیں ۔ میں جب شہلا کاکڑ کے بارے میں سوچتی ہوں تو وفور جذبات سے آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں ۔ خوش قسمت والدین نے اس گوہرنایاب کی پرورش کی جس نے اس مصنوعی اور خود غرض دُنیا میں عظیم صحابیات کی روایت زندہ رکھی ہے اور خواتین کا مورال بلند کردیا ہے۔ شہلا کاکڑ کا خیال آتا ہے تو خود بخود یہ مصرعہ پڑھنے لگتی ہوں
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم
ثمر خان خاص دیر سے تعلق رکھتی ہیں اور راولپندی میں رہتی ہیں ۔ اس باحوصلہ اور باہمت صنفِ نازک نے اسلام آباد سے فزکس میں ماسٹرکیا ہے فزیکل ٹریننگ سکول آف آرمی کاکول سے پیراگلائیڈر کی تربیت حاصل کرنے کے ساتھ مزید کئی شعبوں میں مہارت حاصل کی۔
Samar Khan
ثمر خان کی وجہ شہرت یہ ہے کہ یہ وہ دنیا کی پہلی سائیکلسٹ خاتون ہے کہ جنہوں نے دُنیا کی دوسری طویل ترین گلیشیئرز جو کہ 4500 میٹر بلند ہے کو سائیکل پر سر کر کے یہ اعزاز حاصل کیا۔ اور پوری دُنیا مین پاکستان کا نام روشن کیا۔ ثمر خان بلامبالغہ پہاڑوں کی شہزادی کہلانے کی مستحق ہیں۔ اقبال نے تو کلہم مومنین کے لیے کہا تھا مگر اس وقت میں یہ شعر اپنی صنف نازک کی اس کوہ کُن خاتون ثمرخان کے لیے لکھنا پسند کروں گی۔
ڈوبیں ان کی ٹھاکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی