یہ کرہ ِ ارض اس وقت عجیب و غریب کشمکش کا شکار بنا ہوا ہے۔کورو نا کی تباہ کاریوں نے انسانی بے بسی کا جس طرح مذاق اڑایا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب انسان کے خوف میں اضافہ نہیں ہوتا ۔انسان کا سکون بری طرح تباہ و برباد ہو چکا ہے اور اس کی زندگی ایک ایسی غیر یقینی کیفیت کی شکار ہو چکی ہے جو اس کے اضطراب میں اضافہ کا موجب بن رہی ہے۔قرن ہا قرن کی انسانی ترقی چشمِ زدن میں ایک وائرس کے ہاتھوں بے بسی کی تصویر بن گئی ہے۔انسان اپنی سائنسی کامیابیوں پر جس طرح سے اترا رہا تھا اور اس کرہِ ارض پر خدائی دعووں کا نقیب بن رہا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہو گیا ہے۔ایٹمی توانائی سے لیس ریاستیں انسانی جانیں بچانے میں جس بری طرح سے ناکام ہوئی ہیں وہ کسی بیان کی محتاج نہیں۔انسان چاند پر کمندیں ڈال رہا تھا،سیارگان کی روانگی اور فضائی کروں پر حاکمیت کے سنہرے خواب سجا رہا تھا لیکن ایک مہلک وائرس نے اس کے سارے خواب چکنا چور کر دئے ہیں۔سائنس کی اہمیت تو اپنی جگہ مسلمہ رہے گی لیکن لعل و زرو جواہر کے جلال سے لیس انسانی رویوں نے جو منہ زور رخ اختیار کر لیا تھا اس پر نظر ثانی کی ضرورت تھی ۔انسان کے ہاتھوں اپنے ہم جنس دوسرے انسانوں کو جو ان دیکھی زنجیریں پہنا دی گئی تھیں انھیں کھول دینے کی ضرورت تھی ۔ارتکازِ دولت کی ہوس نے انسانوں کے استحصال کو جس طرح سے فروغ دیا تھا اس کے خاتمہ کا شائد وقت آ گیا ہے۔سرمایہ داری کا وہ مکروہ نظام جس سے امیر امیر تر اور غریب غر یب تر ہو رہا تھا اس پر روک لگانی ضروری ہو گئی تھی ۔کورونا وائرس نے انسان کو بتا دیا ہے کہ انسان کے استحصال کا نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔اسے دیر یا بدیر کسی ایسے نظام کی جانب رجوع کرنا ہو گا جس میں انسانی جان کی حر مت ہو اور عدل و انصاف جس کی بنیاد ہو۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کا شکار وہ قومیں بنی ہوئی ہیں جو دنیاوی ترقی کے عروج پر ہیں۔جن کی سائنسی ترقی اوجِ ثریا کو چھو رہی ہے اور جھنیں اپنی ترقی پر بڑا گھمنڈ تھا۔امریکہ برطانیہ،اٹلی ،سپین،فرانس اور جرمنی کورونا وائرس کا سب سے برا نشانہ بنے ہیں۔امریکہ نے تو کورونا وائرس کے سامنے جس بری ٰ طرح سے گھٹنے ٹیک دئے ہیں اس نے اس کی سپر میسی کو سخت زک پہنچائی ہے۔اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ وہ اسلحہ کے زور پر دنیا کو غلام بنانے کے خواب دیکھ رہا تھا لیکن کورونا وائرس کے ایک جھٹکے نے اس کی ساری پھوں پھاں ہوا کر دی ہے۔اسے خود سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا ہے؟وہ بڑے جتن کر رہا ہے لیکن مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔امریکہ میں انسانی لاشوں کے انبار لگے ہو ئے ہیں اور کورونا وائرس سے مرنے والوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ۔امریکی صدر کے بے رحم رویے اور ان رویوں سے پیدا ہونے والی کیفیت نے امریکہ کو بامِ عروج سے زمین پر پٹخ دیا ہے ۔
بہت سے ممالک اب اس کی دسترس سے نکلتے جا رہے ہیں۔ان کا رخ اب چین کی جانب مڑ رہا ہے۔چین اس دور کی ابھرتی ہوئی قوت ہے جبکہ امریکہ کا سورج دھیرے دھیرے غروب ہو تا جارہا ہے ۔جس قوم پر زوال کا گھیرا تنگ ہونا شروع ہو جاتا ہے اسے خود بھی خبر نہیں ہوتی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے جب کے پوری دنیا اس کی تماشائی ہوتی ہے۔صرف زوال پذیر قوم اس بدلتی کیفیت کو دیکھنے سے معذور ہو تی ہے۔وہ زوال پذیر ہو رہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ شان و شکوہ کی بلند و بالا بلڈنگ جب دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے تو پھر اسے ہوش آتی ہے لیکن اس وقت اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔،۔دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اس کرہِ ارض کی سپر پاور تھا۔اس کے اقتدار پر سورج غرو ب نہیں ہوتا تھا لیکن جنگِ عظیم کے بعد امریکہ اس پر برا جمان ہو گیا۔برطانیہ کی مالی ، معاشی اور جغرافیائی حیثیت انتہائی کمزور ہو گئی تھی لہذا وہ اس مسند کا اہل نہیں رہا تھا۔سلطنتِ عثمانیہ تاریخی حوالہ کیلئے ایک زندہ مثال ہے جو اب ترکی جیسے ایک چھوٹے سے ملک میں مقید ہو کر رہ گئی ہے۔ترکی کو پھر سے اٹھانے کی بڑی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن کوئی ملک اس طرح سپر پاور نہیںبنتا ۔کوئی بڑی نابغہِ روزگار شخصیت ابھرتی ہے اور ملک کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔حالات و واقعات اور تاریخی مواقع اس شخصیت کو کارہائے نمایاں سر انجام دینے کیلئے مہمیز کا کام دیتے ہیں اور یوں کوئی مخصوص قوم دنیا کی امام بن جاتی ہے۔،۔
ڈولنڈ ٹرمپ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ایک متلون مزاج انسان ہے جو ہر آن نئے نئے شوشے چھوڑنے میں بڑا ماہر ہے۔نسلی امتیاز اس کے رگ و پہ میں سمایا ہوا ہے۔ بھارت کے نریندر مودی اور ڈولنڈ ٹرمپ کے درمیان یہی قدرِ مشترک ہے جس نے انھیں ایک دوسرے کے قریب کر رکھا ہے۔ نریندر مودی مسلمانوں کا جانی دشمن ہے اور ان کا وجود بھارتی سرزمین سے مٹانا چاہتا ہے جبکہ دوسرا کالوں کا دشمن ہے اور انھیں غلام بنانے پر بضد ہے۔نریندر مودی نے مسلمانوں پر جس طرح عرصہ ِ حیات تنگ کر رکھا ہے اس سے بھارت کے بکھر جانے کے امکانات بڑے روشن ہو تے جا رہے ہیں۔
مسلمانوں نے بھارت میں ہی رہنا ہے یہ ان کے آبائو اجداد کی دھرتی ہے اور اپنی دھرتی کو کوئی نہیں چھوڑتا۔نریندر مودی کے ظلم و ستم کے باوجود کوئی انھیں بزورِ قوت بھارت سے بے دخل نہیں کر سکتا کیونکہ وہ بھارت کے شہری ہیں۔خدا کی حا کمیت پر یقین رکھنے والی قوم پر ا بتلا ئو آزمائش کی گھڑیاں آ جائیں تو وہ ان سے سہم نہیں جاتی بلکہ پوری بہادری سے اس کا مقابلہ کرتی ہے۔تاریخ کے اوراق میں اس طرح کے حکمران آتے رہتے ہیں لیکن وقت کا بہائو انھیں ایک دن خس و خاشا ک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔ظلم جتنا بھی قوی ہو جائے اسے ایک دن مٹ جانا ہو تاہے یہی قانونِ فطرت ہے۔اسی قانونِ فطرت سے جمہوری نظام کی دلکش کونپلیں پھوٹی تھیں تاکہ انسان باہمی روادری ، محبت اور یگانگت سے سفرِ زندگی طے کر سکے۔ کچھ آمریت پسند اذہان انسانوں کو جھکانے اور نھیں دبانے کی سعی ضرور کرتے ہیں لیکن انھیں منہ کی کھانی پڑتی ہے کیونکہ ظلم کو زیادہ دیر تک نافذ نہیں رکھا جا سکتا۔
ڈولنڈ ٹر مپ کے نسلی امتیاز کا تازہ شکار جارج فلائیڈ بنا ہے جس کی ہلا کت سے پورا امریکہ دہل کر رہ گیا ہے۔کورونا جیسی جان لیوا وباء کی موجودگی میں عوام کے جمِ غفیر نسلی امتیاز کے خا تمہ کے لئے سڑکوں پر ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں نسلی امتیاز کے شکار جارج فلائیڈ کے بے رحمانہ قتل پر احتجاج ہو رہا ہے لیکن ڈولنڈ ٹرمپ عوامی احتجاج پر کان نہیں دھر رہا۔ وہ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹا ہوا ہے ۔وہ کسی کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔نومبر ٢٠١٦ میں اس کے صدارتی انتخاب میں نسلی امتیاز کا نعرے نے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا تھا لہذا وہ اپنے نسل پرستانہ افکار پر بڑی ڈھٹائی سے کھڑا ہے تا کہ ایک دفعہ پھر جیت جائے ۔ مسلمان ہوں یا پھر سیاہ فام حبشی ڈولنڈ ٹرمپ انھیں کسی بھی قسم کی رورعائیت دینے کو تیار نہیں ہے۔قوم منقسم ہو جائے تو پھر اس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔امریکہ بھی اس وقت اسی راہ پر گامزن ہے ۔رومن امپائر بھی ایسے ہی زوال پذیر ہو ئی تھی ۔ بھارت کو بھی ایک دن اپنی نسل پرستانہ سوچ کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال