لاہور: اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ محمد زبیر حفیظ نے کہا ہے کہ قوم کے مستقبل کو چلچلاتی دھوپ اور یخ بستہ سردی سے بچایا جائے ، تین حکومتیں بدل چکیں مگر تاحال زلزلہ سے متاثرہ تعلیمی ادارے تعمیر کے منتظر ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے راولپنڈی میں کشمیری طلبہ کی جانب سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا کہ زلزلے سے تعلیمی نظام سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ جس میں ایک اندازے کے مطابق 18,000 بچے اور 853 سرکاری اساتذہ جاں بحق ہوئے تھے۔
منہدم ہونے والے سکولوں میں 18 ہزار بچوں کی اموات ہوئیں۔ 23 ہزار بچے معذور یا طویل مدتی اثرات والے زخموں سے دوچار ہوئے۔ تقریباً 17 ہزار بچے ماؤں سے محروم ہوئے۔ 21 ہزار یتیم جبکہ 1700 بچوں کے والدین نہ رہے۔دس سال گذرنے کے باوجود زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعلیمی نظام صرف چالیس فیصد تک بحال ہوسکا ہے۔ دس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی آزادکشمیر میں اب بھی سینکڑوں سکولز اور کالجز ایسے ہیں جن کی تعمیر نو کے کام کاآغاز بھی نہ ہو سکا۔
جبکہ سینکڑوں سکولز فنڈ کی کمی کے باعث زیر تعمیر رہ گئے ہیں۔زلزلہ کے بعد این جی اوز اور مختلف ممالک کے تعاون سے کئی اہم سرکاری تعلیمی ادارے تعمیر تو ہوئے ہیں لیکن حکومت پاکستان اور ایرا کے زیر کنٹرول تعمیر ہونے والے ادارے ابھی بھی زلزلہ کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔زبیر حفیظ کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری تعلیمی ادارے تعمیر کیے جائیں۔ متاثرہ علاقوں کے بچے اہل اقتدار سے پوچھتے ہیں کہ آخر کب تک ان کو چلچلاتی دھوپ اور کڑ کڑاتی سردی میں ان پھٹے ہوئے خیموں میں یا پھر کھلے آسمان تلے تعلیم خاصل کرنا پڑے گی۔
،زلزلے میں جزوی طور پر تباہ ہونیوالے 5742 سرکاری سکولوں میں سے 2243 سکول بحال نہ ہو سکے جبکہ ان میں سے 1290 ایسے ہیں جن پر کسی قسم کا کوئی تعمیری کام نہیں ہوا،خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں مجموعی طور پر 5742 سکول تباہ ہوئے۔ ، 3200 سکول ازسرنو تعمیر کئے گئے ، 2242 تعلیمی اداروں کی جزوی تعمیر عمل میں لائی گئی جبکہ 1590 سکولوں کی عمارتوں کو دس سال بعد بھی تعمیر نہیں کیا جاسکا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سکولوں کی ازسرنو بحالی میں تاخیر کی بنیادی وجہ مالی وسائل کی کمی بتائی جاتی ہے۔