تحریر : قادر خان افغان کسی بھی قوم کا تہوار اُس کی ثقافت و تاریخ سے جڑا ہوتا ہے ۔ جس کے ذریعے نوجوان نسل کو قومی تاریخ سے روشناس کرایا جاتا ہے ۔ تہذیب و ثقافت شناسی حکم الہی بھی ہے تاکہ ان کے مطالعے سے سبق حاصل کیا جاسکے ۔ پاکستانی مملکت ،مدینہ ریاست کے بعد اسلام کے نام پر قائم ہونے والی دوسری اسلامی ریاست ہے ۔ پاکستان کا قیام دو قومی نظریئے کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا تھا ۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی قوم کو اپنے قراردادِمقاصد سے بتدریج دور کردیا گیا۔ آج کا پاکستانی نوجوان ، اپنی اسلامی ریاست کے قائم کے مقاصد کو کبھی سیکولر ازم ، ڈیموکریسی ، تھیوکریسی اور آمرانہ نظام کے تناظر میں دیکھنا چاہتا ہے ۔ قائد اعظم کے اُن ارشادات کو تاریخ سے حذف کیا جارہا ہے جو پاکستان کے نظام کیلئے قائد اعظم نے سینکڑوں فرمودات اساسی درجے کے حامل تھے۔ ہمارے نظام تعلیم میں اُن قرآن کی روشنی میں دیئے فرمودات کو شامل نہیں کیا گیا جس میں واضح طور پر پاکستان کے قیام کے مقاصد بیان کئے گئے تھے ۔
14اگست کا دن ہماری قومی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے ۔آج پاکستانی قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ 14اگست کا دن پاکستان کی آزادی کا دن تھا ۔ پوری پاکستانی قوم اس دن کو عقیدت، احترام و جوش اور جذبے سے مناتی ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے 14اگست کا دن کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان 14اگست کا دن کے دن آزاد نہیں ہوا تھا بلکہ 15اگست کو پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔اس کے لئے مختلف آرا بطور ثبوت پیش کیں جاتی ہیں ۔ تفصیل میں جائے بغیر دو حوالے جات کا ذکر کرونگا ۔ اسٹینلے والپرٹ معروف محقق ہیں۔خود حکومت پاکستان نے ان سے کہہ کر قائد اعظم پر کتاب لکھوائی۔’جناح آف پاکستان’ نامی یہ کتاب قائد اعظم پر لکھی گئی معتبر کتابوں میں سے ایک ہے۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان15اگست کو قائم ہوا۔اسٹینلے والپرٹ ہی کی ایک اور کتاب ہے جس کا نام ہے “A New History Of India”۔اس کے صفحہ 349پر وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان 15اگست کو بنا۔خود پاکستان کے سابق وزیر اعلی چودھری محمد علی کی گواہی بھی یہی ہے۔اپنی کتاب “Emergence Of Pakistan”جس کا اردو ترجمہ’ظہور پاکستان’ کے نام سے مارکیٹ میں موجود ہے، کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ پاکستان 15اگست کو معرض وجود میں آیا۔
پاکستان کے قیام کے حوالے سے حقیقی تاریخ کو متنازعہ قرار دیا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ نوجوان نسل یہ پوچھنے پر مجبور ہونے لگی ہے کہ قیام پاکستان کی تاریخ کو صرف70برسوں میں ہی متنازعہ کیوں بنا دیا گیا ۔ 15اگست کے حوالے سے جتنے شواہد اور حوالے دیئے جاتے ہیں ، اس پریہاں بحث کرنے کے بجائے سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اتنے مختصر وقت میں تاریخی لمحے پر بھی اتفاق رائے نہیں پیدا کرسکے۔
21 اپریل 1938 ء کو پاکستان کے قومی شاعر، حکیم الامت ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال اس دارِ فانی کو چھوڑ کر راہ روِ عالمِ بقا ہوئے ، ہماری نوجوان نسل9 نومبر1877ء کو پیدا ہونے والے حکیم امت کی برسی کو نہیں مناتی۔ ان کے افکار اور علامہ اقبال کے خواب کی درست تشریح اور ‘ خودی ‘ کے فلسفے سے آگاہی کے حوالے سے خود فراموشی کی جانب رواں ہیں ۔ اقبال کی فکر کو تقاریر میں جوش خطابت کے لئے تو بڑے زور و شور سے پڑھا جاتا ہے لیکن اس کی اصل روح کو ہمارے حکمران اپنے قوم و فعل میں پیدا نہیں کرسکے ۔ علامہ اقبال شاعر مشرق ، حکیم الامت اور فلسفہ خودی کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیمات کو اپنے کلام کے ذریعے پھیلایا کرتے تھے ، لیکن آ ج کی نوجوان نسل کو ہندوستان سے ایک علیحدہ قوم بنانے کی وجوہات کے بجائے ‘ امن کی آشا ‘ کے نام پر اقبال کے مشہور زمانہ نظم “سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا” تو پڑھائی جاتی ہے لیکن حضرت اقبال کی اس “جہادی سوچ “کو نوجوان نسل سے ختم کی جا رہی ہے کہ علامہ اقبال نے دو قومی نظریہ کے تحت یہ بھی فرمایا تھا کہ ” چین و عرب ہمارا ۔ہندوستان ہمارا۔مسلم ہیں ہم ۔۔وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔ توحید کی امانت ۔۔سینوں میں ہے ہمارے ۔۔آسان نہیں مٹانا ۔۔نام و نشاں ہمارا۔”
موجودہ دور میں ہم مزید آگے بڑھتے ہیں کہ 11ستمبر1948ء کو قائد اعظم دنیا سے رحلت فرما گئے ۔ پاکستانی قوم ان کی برسی پر ہر سال خراج عقیدت پیش کرتی ہے ۔ لیکن اب آہستہ آہستہ نائن الیون کے حوالے سے ہماری نوجوان نسل کی سوچ کو موڑ دیا گیا ہے ۔امریکہ میں 9ستمبر2001ء میں ہونے والے واقعے کو اسلام سے جوڑا جاتا ہے اور انتہا پسندوں کا گھر پاکستان کو قرار دینے کی عالمی سازش عروج پر ہے۔ پاکستان کو واضح دھمکی دے کر افغانستان میں جارحیت کا جواز پیدا کرکے گزشتہ16برسوں سے امریکہ نے قبضہ کیا ہوا ہے اور ان 16برسوں میں پاکستان کو جتنا نقصان پہنچا اور قیمتی جانوں کا ضائع ہوا ، پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا جارہا۔ اس پر قوم کی نوجوان نسل ، اسلام کے خلاف پروپیگنڈوں کا شکار ہو رہی ہے ، اسلام کے پیغام کی حقیقی روح کو سمجھنے کے بجائے متنفر ہو رہی ہے ۔ اب اعلی تعلیم اداروں کے پڑھے لکھے نوجوان ، پروفیسرز ، لیکچرار اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر بھی انتہا پسندی کی جانب گامزن نظر آتے ہیں۔جو ایک المیہ ہے ، جس پر غور و فکر کرنے کے بجائے ہم ابھی تک مغربی استعماری طاقتوں کے ذہنی غلام بنے ہوئے ہیں۔قائد اعظم کی رحلت کے موقع پر ایک ایسا تہوار پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھوں فراموش کردیا گیا ہے جس دن پاکستانی نوجوان نسل کو قائداعظم کی جدوجہد اور پاکستان کے قیام کے مقاصد و حصول سے روشناس کرانے کا موقع ملتا تھا ۔
ہمارے میڈیا کی توجہ بھی نائن الیون پر رہتی ہے اور قیام پاکستان کے حقیقی رہنما ء کی جدوجہد و مقاصد کو نوجوان نسل سے روشناس کرانے کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔پاکستان کے دو قومی نظریئے کو تاراج کرنے والوں نے پاکستان کے بازوکو سازشوں سے الگ کرکے مشرقی پاکستا ن سے بنگلہ دیش بنا دیا ۔ ہماری نوجوان نسل 16دسمبر1971کے سانحہ کے اسباب سے آگاہ نہیں ہے ۔ انہیں تاریخ کے دو الگ الگ باب پڑھائے جا رہے ہیں ۔ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا گیا ، ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کیا گیا ۔ یہی غلطیاں بڑھتے بڑھتے آرمی پبلک اسکول کے سانحے کا سبب بنی۔16دسمبر2014 کے دن معصوم بچوں کے قتل عام کی صورت میں سامنے آئی اور ہماری نوجوان نسل کی توجہ 16دسمبر1971 کے سقوط ڈھاکہ سے بٹ کر اے پی ایس کے سانحے کی جانب مبذول ہوچکی ہے۔کچھ یہی صورتحال یوم دفاع پاکستان کے موقع پر سامنے آئی کہ پاکستان کے دفاع کے تاریخی دن کو منانے کی روایت کو بھی غیر محسوس انداز میں فراموش کرانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر پاکستان کی جانب سے احتجاج اور دنیا میں پناہ دینے والے دوسرے بڑے ملک کی حیثیت سے ایک موثر کردار ادا کررہا ہے۔ لیکن یوم دفاع پاکستان کے اس اہم موقع پر سیاسی جماعتوں سمیت مذہبی و سماجی تنظیموں نے یوم دفاع پاکستان پر اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ کرکے پاکستان کے دفاع کے لئے اظہار یک جہتی کا پیغام عالمی برادری کو دینے کے بجائے نوجوان نسل کے جذبے کا رخ موڑنے لیکر خاص طور پر قومی تہوار کے عظیم دن کا انتخاب کیا ۔ روہنگیائی مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کیلئے یوم دفاع پاکستان کے بجائے کسی دوسرے دن کا انتخاب بھی کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن جہاں پاکستا ن کے قیام کے مقاصد ، و جشن پاکستان کے دن کو ہی فراموش کردیا گیا ہو اور با حیثیت پاکستانی قوم ہم اس نتیجے پر ہی نہ پہنچ سکے ہوں کہ پاکستان کے قیام کے مقاصد کیا تھے اور پاکستان کس دن آزاد ہوا ۔ تو ہم اپنی نوجوان نسل کو پاکستان کے دیگر قومی تہواروں اور اہم شخصیات کی جدوجہد و کردار کو سامنے لانے کے بجائے ‘ تاریخ کی اصل کتاب ‘ کو چھپا رہے ہیں۔ قومی دنوں کو تنازعات سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔