آج کل نیویارک میں اقوام متحدہ (united nation)کی جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔ یہ اجلاس اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے منعقد ہو رہا ہے۔ کہنے کو یہ اقوام متحدہ ( یعنی متحد قومیں) کا اجلاس ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم ممالک کے سربراہان شرکت کرتے ہیں۔ اس کا بنانے کا مقصد یہ ہی تھا کہ تمام قومیں ملک کر رہیں اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ ہر سال ستمبر میں اقوام متحدہ کے صدر مقام پر اجلاس ہوتا ہے جس میں اقوام متحدہ میں شامل جماعتوں کے سربراہان شرکت کرتے ہیں اور جو اپنے اپنے ملک کو درپیش مسائل اور ایک دوسرے ملکوں سے گلے شکوے بیان کیے جاتے ہیں۔ پھر مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل نکالا جاتا ہے مگر آج تک اقوام متحدہ نے مسلمان ممالک کے کوئی بھی مسائل حل نہیں کرائے۔ بھارت کے ساتھ قیام پاکستان سے آج تک کشمیر کا تنازعہ چلا ا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس کے متعلق قرارداد بھی منظور کی مگر آج تک وہ ان قرار دادوں پر عمل نہیں کرا سکا۔ اگر یہ ہی قرار داد کسی اسلامی ممالک کے خلاف منظور ہوتی تو تمام غیر مسلم طاقتیں ان کو کب کا عملدرآمد کرا چکی ہوتیں۔
اگر میں یہ کہوں کہ اقوام متحدہ نہیں بلکہ یہ من پسند اقوام متحد ہیں تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ اقوام متحدہ اب امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے ہاتھوں ہیک (Hack) ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ سے اب مسلم ممالک کو انصاف کی امید نہیں۔ اقوام متحدہ میں شامل بعض ممالک، مسلم ممالک میں دخل اندازی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر بھارت سے کشمیر کے موضوع پر جنگ تو بہت دور بلکہ بات کرناب ھی گوارہ نہیں کرتے۔ کویت، عراق، افغانستان اور فلسطین میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے جس طرح مداخلت کی اس کا کس علم نہیں اور اب شام پر آنکھیں جمائے ہوئے ہے۔ امریکہ کا ایران پر بس نہیں چلتا ورنہ ایران میں گھسنے کے لیے تیار ہے۔ بھارت پاکستان کا ہمسایہ ملک ہونے کے ساتھ ساتھ ازلی دشمن بھی ہے۔ بھارت نے آج تک پاکستان کے وجود کو دل سے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ دشمنی نبھانے میں بھارت نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
Kashmiri Brothers
کشمیریوں کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے؟ تاریخ اٹھاکر پڑھ لیں کشمیر پاکستان کاحصہ تھا مگر ہندؤوں اور انگریزوں کی شاطر چال نے اس کو ہندوستان کا حصہ بنا دیا۔ہندو بنئے اپنے ذہین سے یہ نکال دیں کہ کشمیر ان کا ہے۔ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا۔ اوروہ دن دور نہیں جب انشاء اللہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہوگا۔ آج جب پوری دنیا میں جمہوریت کے دعوے دار اور جمہوریت کے چیمپئن نیویارک میں جمع ہیںمگر وہ کشمیر کے نام پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کشمیریوں پر ظلم اقوام متحدہ کوکیوں نظر نہیں آرہا؟ وہ انڈیا کو کیوں مجبور نہیں کرتے کہ کشمیر کو حق خودارادیت دے؟ اس لیے کہ اس پر بھارت(غیر مسلم) مسلط ہے۔ امریکہ اور دیگر غیر مسلم طاقتوں کو انسانی ہمدردی نہیں ہے بلکہ انکو مسلمانوں سے نفرت ہے یہ مسلم ممالک کی معدنیات پر قابض ہونے کی مسلم دشمن پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اگر اقوام متحدہ واقعی جمہوریت پسند ہے۔
انسانی حقوق کا علمبردار ہے تو پھر کشمیریوں کی آزادی کے لیے بھارت پرزور کیوں نہیں دیتا؟ کشمیریوں کو بھارت کے تسلط سے آزاد کیوں نہیں کراتا؟ نیویارک میں جاری جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرا عظم پاکستان نے پاکستان سمیت دیگر درپیش مسائل سے ہر سال کی طرح اقوام متحدہ کو آگاہ کر دیا ہے انہوں نے جس واشگاف انداز میں پاکستان پر امریکی ڈرون حملے بند کرنے، اقوام متحدہ میں اصلاحات کی ضرورت اور دنیا بھر کے مسائل کو “ملٹی ڈپلومیسی “کے ذریعے حل کرنے کی بات کی وہ بڑا جرأت مندانہ قدم ہے۔ اسی طرح انہوں نے تخفیف اسلحہ، ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی توانائی کے حصول میں امریکہ اور یورپ کے دوہرے معیار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستان کے لیے سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کی کھل کر بات کی۔
پاک بھارت مذاکرات کو با معنی بنانے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ شام کی صورتحال اور ان کے قابل عمل حل کی بات کی۔ فلسطین کے مسئلے کو اٹھایا اور اقلیتوں کے مساوی حقوق کی بات کی۔ وزیراعظم پاکستان کے خطاب کے بعد بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں حسب عادت اور غیر مسلم پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب دیکھنا ہے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون ہر بار کی طرح ان مسائل سے آنکھیں پھیر لیں گے یا حقیقت میں ان سنجیدہ مسائل پر عملدرآمد کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے؟ اگر اقوام متحدہ کے سابقہ ریکارڈ کو مدنظر رکھا جائے تو اب بھی کوئی خاص توقع نہیں مگر کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔