معصوم عن الخطا تو کوئی بھی نہیں۔ انسان فانی اور خطا کا پُتلا جس سے غلطی سرزَد ہو جاناعین ممکن لیکن جو مرکب الخطا ہو ؟۔ جو اپنی غلطی کو سدھارنے کو تیار نہ ہو، جس کے قول وفعل میں بعد المشرقین ہو، جس کی خود ستائی، خودنمائی اور نرگسیت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہو، جو ضدّی اور ہٹ دھرم ہو، جس کا خمیر دروغ گوئی سے اُٹھا ہو، جس کی فکر میں گہرائی اور گیرائی نہ ہو، جو ہوسِ اقتدار میں نفسیاتی مریض بن چکا ہو، اُسے ”مہربان” اقتدار کے اونچے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہوں کہ یہ فعل غیرآئینی و غیرقانونی سہی لیکن وقت کی ضرورت یہی ہے تو پھر اِسے ”نظریۂ ضرورت” نہ کہوں تو کیا کہوں؟۔
10 مئی 1955ء کو جسٹس منیر نے فیصلہ دیا کہ ”جو عام حالات میں غیرقانونی ہوتا ہے، اُسے ضرورت کے تحت قانونی قرار دیا جا سکتا ہے”۔ پھر اِسی نظریۂ ضرورت نے ظفرعلی شاہ کیس میں پرویز مشرف کو تین سال کے لیے حقِ حکمرانی بخشا۔ 31 جولائی 2009ء کو سپریم کورٹ نے کہا”نظریۂ ضرورت ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا” طُرفہ تماشہ یہ کہ یہ فیصلہ اُس چیف جسٹس کی سربراہی میں دیا گیا جو خود دو دفعہ عبوری آئینی حکم (نظریۂ ضرورت) کے تحت حلف اُٹھا چکے تھے۔ یہ” نظریۂ ضرورت” بھیس بدل کر آج بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ ہے۔ اب کی بار اِس کا نشانہ نوازحکومت بنی۔ پہلے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ایک انتہائی متنازع فیصلے کے تحت تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے میاں نواز شریف کو گھر بھیج دیا۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہوئی کہ ”مائنس” صرف میاں نوازشریف ہی نہیں، پوری نوازلیگ ہی مطلوب ومقصود تھی۔ معاملہ نیب سے ہوتا ہوا احتساب عدالت تک پہنچا اور پھر ساڑھے نَو ماہ بعد ایک ایسا فیصلہ سامنے آیا جسے بین الاقوامی ماہرینِ قانون بھی درست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جج محمد بشیر صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ استغاثہ منی لانڈرنگ یا کرپشن ثابت کرنے میں تو ناکام رہا لیکن گمان یہی ہے کہ استغاثہ نے جو کہا، وہی سچ ہے اِس لیے میاں نوازشریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 سال اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایک سال قیدِ بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔ ہم نے تو یہی سنا تھا کہ شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جاتا ہے لیکن یہاں معاملہ اُلٹ ہو گیا، استغاثہ کو بغیر کسی ثبوت کے سچ مان لیا گیا اور ملزمان کو مجرمان قرار دے دیا گیا۔ کیا یہ فیصلہ نظریۂ ضرورت کے تحت نہیں دیا گیا؟۔ کیا تاریخِ عالم میں ایسی کوئی نظیر پیش کی جا سکتی ہے؟۔
پاکستان کی تاریخ تو یہی ہے کہ سزا کے خوف سے لوگ ملک سے فرار ہو جاتے ہیںاور پھر وہیں کے ہو رہتے ہیں۔ لیکن میاں صاحب نے تو لندن میں سزا سُنی اور واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ بزرجمہر تو یہی کہتے تھے کہ میاں نوازشریف قصّۂ پارینہ بن چکے۔ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیںگے لیکن میاں صاحب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاء اپنی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کو لندن کے ہسپتال میں چھوڑ کر سزا کاٹنے کے لیے پاکستان آگئے حالانکہ ڈاکٹرز کا اصرار تھا کہ اہلیہ کو اِس مخدوش حالت میں چھوڑ کر جانا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔ میاں صاحب کی آمد کی اطلاع ملتے ہی پنجاب کی نگران حکومت بوکھلاہٹوں کا شکار ہو گئی۔ پنجاب حکومت کے انتہائی نامناسب اقدامات نے 70 کی دہائی کی یاد تازہ کر دی۔ اِس کے باوجود کہ پورا پنجاب عملی طور پر مفلوج کر دیا گیا، 50 سے 60 ہزار ”لاہورئیے” تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اپنے قائد کے استقبال کے لیے لاہور ایئرپورٹ کے مضافات تک پہنچے۔
یہ جذبہ وجنوں کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک عامی بھی جانتا تھا کہ میاں صاحب اور مریم نواز کو لاہور ایئرپورٹ کے اندر سے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل پہنچا دیا جائے گا، نَیب کے بار بار یہی اعلانات سامنے آ رہے تھے، مقصد یہی کہ لوگ بَددل ہو کر گھروں میں بیٹھ رہیں لیکن پھر بھی کارکُن نکلے اور خوب نکلے ۔ اب میاں صاحب اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ اڈیالہ جیل میںقیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جا چکی۔ دیکھتے ہیں کہ یہاں بھی نظریۂ ضرورت کی حکمرانی ہوتی ہے یا ۔۔۔۔۔
میاں نواز شریف کا قصور ہے تو محض اتنا کہ وہ ووٹ کو عزت دلوانا چاہتے ہیں۔ یہی تو بانیٔ پاکستان نے کہا تھا۔ قائدِاعظم نے 1943ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں فرمایا ”پاکستان کے آئین اور حکومت کا پاکستان کے فیصلہ عوام کریں گے”۔ اُنہوں نے 14 مئی 1947ء کو رائٹر کے نامہ نگار ڈون کیمپ بل کوانٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ”پاکستان کی حکومت مقبول ، نمائندہ اور جمہوری ہی ہو سکتی ہے۔ اِس کی کابینہ اور پارلیمنٹ حتمی طور پر رائے دہندگان اور عوام کے سامنے جوابدہ ہوں گی۔ عوام قطعی اور حتمی حاکم ہوںگے”۔ لیکن یہاں سوال ووٹ کو عزت دینے کا نہیں، نظریۂ ضرورت کا ہے کہ مہربان اقتدار کا ہُماکسی اور کے سَر پر بٹھانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔
علامہ اقبال نے کہا گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جُز بہ قُرآں زیستن
زمین کا یہ ٹکڑا اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ اِس کا حاکم وہی شخص قرار دیا جا سکتا ہے جس کا قول وفعل اور عمل (چھوٹی موٹی خطاؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے) دینِ مبیں کے عین مطابق ہو۔ قُرآنِ مجید فُرقانِ حمید میں درج کر دیا گیا ”آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو”(الحجرات)۔ عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے آقاۖ کا فرمان ہے ”جس نے کسی مسلمان کو اپنے ہاتھ یا زبان سے دُکھ پہنچایا، وہ ہم میں سے نہیں”۔ یہاں معاملہ مگر بالکل اُلٹ کہ رَہبری کا دعویٰ کرنے والے بَدزبان و بَدکلام۔ اُن کا حرف حرف دوسروں کے لیے باعثِ آزار اور پیروکار بھی اُسی کی راہ پر کہ
کند ہم جنس باہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر ، باز با باز
اشرف ولمخلوقات کو سرِعام ”گدھے” اور ”طوائف کے بچے” کہنے والوں کو لازمۂ انسانیت سے تہی نہ کہوں تو کیا کہوں۔ پیشانیاں عرقِ ندامت سے تَر ہو جاتی ہیںجب ایسے لوگ رَہبری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہم نے 1970ء سے اب تک سارے انتخابات دیکھے اور سیاسی سربراہان کے خطابات بھی سنے لیکن پہلے کبھی ایسے انتخابات سے پالا پڑا نہ رَہنماؤں سے۔ اب تو رسم چل نکلی ہے کہ حریفوں کو گالیاں دو، اُن پرکیچڑ اچھالواور جو مُنہ میں آئے ،بَک دوتمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا کہ تمہاری پُشت پر مہربانوں کا ہاتھ ہے اور تم ہی مہربانوں کے مَن بھاتے ہو۔ اب مقابلہ” عوامی شعور” اور ”نظریۂ ضرورت” کا ہے۔ دیکھتے ہیں فتح کس کے حصّے میں آتی ہے۔