تحریر : قاضی رفیق عالم مارچ کا مہینہ ایک بار پھر اسلامیان پاکستان پہ سایۂ فگن ہے… وہی ماہ جب ہندوئوں اور انگریزوں کے ظلم وستم کے شکار مسلمانوں نے اپنی منزل کی طرف کشاں کشاں مارچ کرنے کا آغاز کیا… اور آخر کار انہوں نے ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے… وہ منزل جو آزادی کی منزل تھی… جو ان کے تحفظ اور بقاء کی منزل تھی۔ جو ان کے حسین خوابوں کی تعبیر تھی… جو ان کے ارمانوں کی تصویر تھی… جو بالاکوٹ سے کالا پانی تک بہتے ہوئے لاکھوں مسلمانوں کے خون کی تنویر تھی… جس کے لئے داروگیر اور ہجرت کے خونچکاں سفر سے گزرے ہوئے مسلمانوں کی روح کب سے دلگیر تھی…… یہ ان کے لئے ایسا قلعہ اور ایسی ریاست تھی جو دشمن کے لئے ناقابل تسخیر تھی… جو ان کے جسم و جاں اور روح کے تحفظ کی نظیر تھی… جی ہاں یہ کوئی محض الگ ریاست’ الگ حکومت اور ایک الگ چاردیواری حاصل کرنے کی سعی و تحریک نہ تھی بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا’ ایک جذبہ تھا’ ایک نظریہ تھا کہ جس کے تحت مسلمانوں کو اسلام کے مطابق آزادانہ زندگی گزارنے کے لئے ہر طرح کا تحفظ ملنا تھا۔
23 مارچ 1940 ء کو یہی منصوبہ اور یہی نظریہ دو قومی نظریہ اور قرار داد پاکستان کی صورت میں باقاعدہ مدوّن و مجسم ہوکر دنیا کے سامنے آیا۔ 23مارچ 1940 ء سے 23 مارچ 2017ء تک 77 سال اس سفر کو گزر گئے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس دو قومی نظریئے کو پروان چڑھانے کے لئے ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور اسے اپنے تمام مسائل کا حل قرار دیا’ کیا آج بھی ہم اس نظریہ کو اسی جذبہ اور اسی روح کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں… جب دو قومی نظریہ کو ہم نے اس کے صحیح جذبہ اور روح کے ساتھ پروان چڑھایا تو چشم فلک نے دیکھا کہ اسلامیان ہندوستان محض 7 سال کی مختصر ترین مدت میں ہی منزل سے ہمکنار ہوگئے… لیکن منزل کے حصول کے بعد جب ہم نے اس نظریہ کو فراموش کردیا تو پھر پاکستان ایسی نعمت عطا کرنے والے خدائے لم یزل نے بھی ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا اور وہی پاکستان جو عالم اسلام کا سب سے بڑا ملک تھا’ آدھا ہوکر اپاہج سا بن گیا… اب باقی بچا کھچا پاکستان ہمارے لئے پھر ایک امتحان تھا اور ہے کہ ہم اس کی قدر کرتے ہیں یا نہیں اور اس کی اصل قدر تو اس کے جذبۂ محرکہ یعنی نظریۂ صادقہ کی قدر کرنے سے ہے لیکن معلوم یوں ہوتا ہے کہ آج ہم اس نظریہ کو ہی بھلاتے جا رہے ہیں جو اس مُلک خداداد کے قیام کا سبب بنا۔ کسی بھی چیز کے بنانے کا جب اصل مقصد فراموش ہوجائے تو پھر اس سے مثبت نتائج ملنے بند ہوجاتے ہیں۔ چھری کو اگر انسان صرف نعمتوں کے بہتر طریقے سے حصول کے لئے استعمال کرے تو اس سے مفید چیز کوئی نہیں لیکن یہی چھری غلط مقاصد کے لئے استعمال ہو اور انسان اپنے ہی بھائیوں کو کاٹنے کے لئے استعمال کرنے لگے تو پھر یہی چھری غلط اور پریشان کن نتائج دے گی۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب سے پہلے اس نظریئے کو سمجھیں اور پھر غور کریں کہ کیا اس نظریہ کے تقاضے ہم پورے بھی کر رہے ہیں یا نہیں… ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دو قومی نظریہ کی اصل بنیاد کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ تحریک پاکستان کا سب سے عام اورمقبول نعرہ تھا اور اسے قائد اعظم کی صدارت میں ہونے والے اکثر جلسوں میں لگایا گیا۔ اگر قائد اعظم پاکستان کے اس مقصد و مطلب اور نظریہ و نعرے کو غلط سمجھتے تو لوگوں کو ضرور اس سے روکتے۔ ان جیسی با اصول اور قول و فعل کے تضاد سے عاری شخصیت سے کوئی توقع کر ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ اپنے سامنے کوئی غلط کام دیکھتے اور پھر اس پر نہ صرف خاموش رہتے بلکہ اسے اکثر جلسوںمیں چلنے بھی دیتے۔ مزید برآں آپ نے اپنے خطابات میں پاکستان کے اس مقصد کی اچھی طرح تصدیق بھی کردی۔ جب ان سے ایک بار پاکستان کے دستور کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا یہاں برطانیہ کا 1835ء کا ایکٹ چلے گا یا کوئی اور تو قائد اعظم نے اس موقع پر بھی واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ‘ ہمارے پاس قرآن کی صورت میں ہمارے نبی ۖ نے ہمیں 1300 سال پہلے ہی دستور دے دیا تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی اور دستور کی ضرورت نہیں۔
Islam
سیدھی سی بات ہے کہ اگر پاکستان کے قیام کا مقصد اسلام کے مطابق زندگی گزارنا نہیں تھا’ محض سیکولر ہی رہنا تھا تو پھر یہ نظام تو برصغیر کی تقسیم کے بغیر ہی ہمیں حاصل تھا۔ دوبارہ سیکولرزم کو ہی اختیار کرنا ہوتا تو پھر لاکھوں جانیں اور عصمتیں قربان کرنے اور آگ و خون کے دریا عبور کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس لحاظ سے پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور دو قومی نظریہ کو اگر اس کلمہ کی تشریح ہی کہا جاتا ہے تو یہ حقائق کے عین مطابق ہے۔ دو قومی نظریہ کہتا ہے کہ مسلمان اور ہندو برصغیر کی دو بڑی قومیں ہیں۔ دونوں کی تہذیب ‘ کلچر’ ثقافت ‘ رہن سہن’ بودوباش’ اکل وشرب ‘حلال و حرام’ عقائد و نظریات اور عبادات ہر چیز ایک دوسرے سے الگ بلکہ متضاد ہے۔ قائد اعظم کے بقول ایک چیز جسے ہندو بھگوان اور خدا جانتے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں’ ہندوئوں کے اسی خدا کو مسلمانوں کے ہاں ذبح کرکے کھانا مرغوب امر ہے۔ تو سوچ و نظریات میں اس قدر بعد المشرقین رکھنے والی دو قومیں کیسے اکٹھی رہ سکتی ہیں؟ کلمہ لا الٰہ الااللہ یہی کہتا ہے کہ مخلوق کو خالق و مالک’ مشکل کشا اور بھگوان کا درجہ دینے والے مشرک اور اکیلے اللہ کو خالق و مالک اور مشکل کشا ماننے والے موحد اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اسلام اور توحید کا یہی تقاضا ہے کہ مسلمان کے لئے جوں ہی ممکن ہو’ وہ مشرکوں کافروں سے ہٹ کر اور کٹ کر آزاد اسلامی معاشرے میں اپنی زندگی گزارے کیونکہ اس کے دین و مذہب ‘ ثقافت اور اسلامی سیاست و معیشت کا تحفظ صرف اسی صورت ہی ممکن ہے ورنہ بقول اقبال… کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔
چنانچہ اسی ضمیر اور ایمان کے تحفظ کے لئے پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اور یہی دوقومی نظریہ اور نظریہ ٔپاکستان ہے جسے ہمیں نظریہ کی بجائے اصلاً عقیدہ ہی کہنا چاہئے کیونکہ نظریہ عام طور پر فلسفہ ہوتاہے جبکہ دو قومی نظریہ فلسفہ نہیں’ اسلام کا عقیدہ ہے ۔شرکیہ و باطل تہذیب سے الگ رہ کر توحید و سنت کی حامل تہذیب میں اپنے ایمان کو محفوظ رکھ کر زندگی گزارنا اسلام کا عقیدہ اور مطالبہ ہے۔ اسلام کی رو سے کافر و مسلم صرف ایک صورت میں ایک معاشرے میں اکٹھے رہ سکتے ہیں کہ مسلمان غالب و حکمران ہوں اور کافر وغیر مسلم محکوم ہوں ورنہ مسلمان کو اگر موقعہ اور سہولت میسر ہو تو اسے الگ ہی رہ کر اسلام کے مطابق اپنا نظامِ زندگی ‘ نظامِ سیاست و معیشت اور اقتصاد چلانا چاہئے۔ نبی ٔ رحمت محمد کریم ۖکی سیرت کے سنہری نقوش بھی ہمارے لئے قدم قدم پر یہی رہنمائی دیتے ہیں۔ مکی زندگی میں جب تک آپۖ کے پاس افراد و وسائل محدود تھے تو آپۖ مکہ میں ہی ہر ظلم و جبر سہ کر دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہے لیکن جوں ہی آپۖ کو معقول افراد و وسائل حاصل ہوئے ‘ آپۖ نے مدینہ کی طرف ہجرت کرکے بالآخر دعوت و جہاد کے ذریعے الگ ریاست بنالی جسے شکست دینا پھر تا قیامت اہل کفر کے لئے ممکن نہ رہا۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ دو قومی نظریہ دراصل دو ملّی اور دو تہذیبی عقیدہ ہے۔ بانیانِ پاکستان کے ذہن میں بھی دو قومی نظریہ سے مراد دراصل یہی دوملّی عقیدہ ہی تھا کیونکہ اس کی جو وہ تشریح کرتے تھے ‘ وہ دو ملتوں اور دو تہذیبوں پر ہی زیادہ صادق آتی ہے… اقبال نے اسی لیے مغرب کوا سلام سے الگ تہذیب قرار دیتے ہوئے کہاتھا…تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی…اس طرح آج جدید دورمیں خودایک غیرمسلم مفکر سیموئل ہنٹگٹن نے تہذیبوں کے ٹکراؤ(clash of civilizations) کانظریہ پیش کیااور بتایا کہ اگلی عالمی سردجنگ وطنی وقومی بنیادوں پرنہیں بلکہ مذہبی عقائد و نظریات اورثقافت کی بنیاد پر لڑی جائے گی۔ان کے اس نظریے کی رُو سے دوہی بڑی تہذیبیں سامنے آتی ہیں جن کاآپس میں اختلاف180o کاہے۔ایک مسلم و موحداسلامی تہذیب اور دوسری کافرومشرک غیراسلامی تہذیب …یہی دوتہذیبی اور دوملّی نظریہ و عقیدہ تھاجس کی بنیاد پر پاکستان معرض وجودمیں آیا۔ آج 23 مارچ کے موقع پر اصل چیز یہ بات سوچنے اور سمجھنے کی ہے کہ کیا ہم اس دو قومی یا دوملّی عقیدہ ونظریہ کے تقاضے پورے کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیا واقعی اس دو قومی نظریہ کی رو سے ہم نے ملک کو اسلام کا گہوارہ بنایا؟ کیا ہرشعبہ زندگی میں ہم نے اسلامی تہذیب’ اسلامی کلچر ‘ اسلامی سیاست اور اسلامی اقتصاد و معیشت کو فروغ دیا ؟اسی طرح کیاہم تمام علاقائی نسلی’ لسانی اور صوبائی تعصبات کو بھلاکر ایک کلمہ پر متحد ہوئے؟’ اگر ایسا نہیں ہوا تو یقینا ہم اللہ کی عطا کردہ نعمت پاکستان کی قدر نہیں کر رہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان آج مختلف خطرناک بحرانوں میں گھرتا جا رہا ہے۔
Pakistan
23 مارچ کو جب قرار داد پاکستان منظور ہوئی تو اس میں ہندوستان کے تمام مسلم اکثریتی علاقوں کو الگ ملک بنانے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس میں یقینا جموں کشمیر بھی شامل تھا کیونکہ کشمیر میں 97فیصد مسلمان تھے اور ہیں لیکن افسوس ہندو اور انگریز کی ملی بھگت سے کشمیر کو اس حق سے محروم رکھا گیا اور بعد میں پاکستان کے حکمرانوں نے بھی اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا جو آج بھی جاری ہے ۔ یہ گویا تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا اور قرار داد پاکستان کا نامکمل حصہ ہے جسے مکمل کرنا ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ کشمیری اس مسئلے پر ہمارے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے’ وہ تو آج ہم سے بھی زیادہ اس مقصد کے لئے اپنی جانیں دائو پر لگا کر اور پاکستان کے پرچم سینے پر سجا کر قربانیاں دے رہے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پروفیسر حافظ محمد سعید جیسے ہمارے وہ رہنما جو قیام پاکستان کے ان مقاصد کی تکمیل کے لئے اور قائد اعظم کے فرمان:” کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے” کوعملی جامہ پہنانے کے لئے کمر بستہ ہیں’ اسی مقصد کے لئے انہوں نے 2017 کا سال کشمیر کے نام کیا’ جنہوں نے مسلم و غیر مسلم کی بلا امتیاز خدمت کو اپنا شعار بنایا اور جس کی گواہی اپنے غیر سب دیتے ہیں لیکن ہمارے حکمران غیر ملکی امریکی اور بھارتی دبائو پر انہی محسنوں پر پابندیاں لگا رہے ہیں اور انہیں نظر بند کر رہے ہیں۔