ہمارے بابا آدم نے ایک غلطی کی اورشیطان کے بہکاوے میں آکر صرف ایک کوتاہی کر بیٹھے اور پھر اس کی سزا جنت سے نکل کر سالوں برداشت کی۔ آج کا انسان بھی اسی غلطی اور بہکاوے کا شکار ہورہا ہے مگر اللہ تعالی صدقہ نبی پاک کے ہمیں نہ تو اتنی لمبی سزا دے رہا ہے اور نہ ہی ہمیں دنیا میں رسواء کر رہا ہے جس طرح غلطی اور کوتاہی انسان کے خمیر میں شامل کردی گئی ہے اسی طرح زندگی میں کام کرنے آگے بڑھنے اور اپنا نام سنہری حروف میں لکھانے کے مواقع ہر انسان کو ملتے ہیں کسی کو کم تو کسی کو زیادہ کوئی ان کم مواقع سے بہت فائدہ اٹھا کر آگے نکل جاتا ہے تو کوئی بڑے بڑے مواقع خواب غفلت میں ضائع کر بیٹھتا ہے۔
پھر بعد میں جب وقت ختم ہو جاتا ہے تو پھر انسان کے پاس سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہیں بچتا خاص کر ہمارے سرکاری اداروں میں بیٹھے ہوئے افسران اگر نیک نیتی سے اپنا کام کرنا شروع کردیں تو نہ صرف انکا اپنا قد اور نام بڑھے گا بلکہ انکی وجہ سے ادارے اور ملک کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا اور ایسے افراد ہر محکمے میں موجود ہوتے ہیں مگر ان میں سب سے بڑی خامی یہ پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے ان کارناموں کو عوام کے سامنے نہیں لانا چاہتے۔
اس کے پیچھے پتہ نہیں کیا سائنس ہے اگر تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انکے اچھے کام خود انکی شہرت کا سبب بنیں گے اور انکے بعد آنے والے انکا چرچا کریں گے تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں یہاں تو آپ کا جونیئر جو سارا دن جو آپکے منہ پر آپکی چاپلوسی کرتا رہتا ہے اور موقعہ ملتے ہی آپکی سیٹ پر قبضہ کرنے کے لیے ہر ہربہ استعمال کر جاتا ہے اس سے آپ نے کیا امیدیں باندھ لی جبکہ سب سے بڑھ کریہ کہ جو کام آپ اپنے لیے نہیں کرسکے وہ دوسرا آپ کے لیے کیوں کریگا۔
آج افتخار محمد چوہدری کے چلے جانے سے ایسا ہی ایک باب بند ہو گیا ان پر بڑے بڑے الزامات لگائے گئے کہ وہ میڈیا کے ہاتھوں میں کھیلتے تھے، خبر وں پربھی سوموٹو ایکشن لے لیا کرتے تھے ،وی وی آئی پی پروٹوکول میں رہتے تھے اور ہر وقت خبروں میں رہنا پسند کرتے تھے جبکہ کچھ نے ارسلان افتخار کے معاملہ پر بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور تنقید کرنے والے بھی وہ ہیں جنہوں نے آج تک کوئی ایسا کام نہیں کیا جن پر وہ خود بھی فخر کر سکیں۔
Arsalan Iftikhar
اگر افتخار چوہدری ٹی وی اور اخبارات کی خبروں پر ایکشن لیتے تھے تو اس میں برائی والی کون سی بات تھی مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی تو تھا اگر افتخار چوہدری اپنے فیصلوں کی بدولت اخباروں اور ٹی وی کی خبروں کی زینت بنتے تھے تو اس میں کونسی برائی تھی انکے کام تھے جو انہیں دن بدن عوام میں ہیرو بنا رہے تھے اور انکی ایک ہی ناں نے تو ملکی سیاست کا نقشہ ہی تبدیل کردیا اور لامحدود اختیارات کے مالک پرویز مشرف کو جانا پڑا پھرجسکے بعد پانچ سال تک پیپلز پارٹی نے پاکستان کے ساتھ کھیل کھیلا اور اب میاں نواز شریف اس ملک کی تقدیر کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
اگر افتخار چوہدری بھی بینظیر بھٹو کی طرح خاموشی سے جلاوطن ہو جاتا یا میاں نواز شریف کی طرح منت سماجت کرکے سعودی عرب پناہ گزین ہو جاتا تو آج بھی پاکستان میں پرویز مشرف کی حکومت ہوتی اور یہ دو نوں بڑی پاکستان کی ٹھیکیدار جماعتیں اور انکے لیڈروں کو آج کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا افتخار چوہدری کے پرٹوکول پر اعتراض کرنے والوں کو علاقے کے ایس ایچ او کے پروٹوکول پر تو اعتراض نہیں جودوران گشت اپنے ساتھ پولیس کے گن مینوں کو بھی ہمراہ ہی رکھتا ہے اس سے اوپر کی تو آپ بات ہی نہ کریں یہاں پر تو ایک روپے کے لین دین پر گردنیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دی جاتی ہیں۔
افتخار چوہدری نے اربوں روپے لوٹنے والے وقت کے فرعونوں کے گلے دبا رکھے تھے اگر انکو افتخار چوہدری کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی کا موقعہ ملتا تو کیا وہ ضائع کرتے یہ صرف اور صرف سخت سیکیورٹی کی وجہ سے ہی ممکن ہوا یہی وجہ ہے کہ جب افتخار چوہدری رخصت ہو رہے تھے تو محب وطن پاکستانیوں کی آنکھ میں آنسو تھے اور مفاد پرستوں کے منہ میں مٹھایاں تھی افتخار چوہدری پوری قوم کا افتخار تھے جنہوں نے اپنے اختیارات کے باعث ثابت کردیا کہ کوئی انسان اگر مخلص ہوکر کام کرنا چاہے تو وہ کرسکتا ہے اور اپنے اچھے کاموں کو عوام تک پہنچانا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے تاکہ پاکستانیوں کو معلوم ہو سکے کہ انکے ٹیکسوں سے جو انسان پیسے لے رہاہے کیا وہ اپنا فرض بھی پورا کررہا ہے یاکہ ہمارے سیاستدانوں کی طرح لوٹ مار کرنے میں ہی مصروف ہے۔
پاکستان میں اچھے اور مخلص انسان ہر جگہ اور ہر محکمہ میں ہر وقت پائے جاتے ہیں صرف انکی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ اپنے اچھے کارناموں کو نمایاں نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ دران ملازمت بھی اکثر زیر عتاب ہی رہتے ہیں اور بعد میں گوشہ گمنامی میں چلے جاتے ہیں میرا آج بھی ان کو مشورہ ے کہ جو موجود ہیں وہ اپنے آپ کو نمایاں کریں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے اور نئے آنے والے آپ کو رول ماڈل بنائیں جبکہ جو فارغ ہوچکے ہیں وہ اپنے پوشیدہ کاموں کو اب اور نہ پوشیدہ رکھی۔
فراغت تو ہے ہی کوئی کتاب ہی لکھ ڈالیں کیا معلوم کل ہو نہ ہو خاص کر سابق ایڈیشنل آئی جی میاں عبدالقیوم، طاہر انور پاشا، اسرار احمد شیخ، اسلم ترین اور فلائنگ ہارس سہیل ثقلین جن کے اندر معلومات کا خزانہ بھرا پڑاہے جو درد دل بھی رکھتے ہیں اور جن کے پاس درد دل کی دواء بھی ہے ابھی موقعہ ہے آپ کے پاس کہ جو اندر چھپائے بیٹھے ہیں انہیں باہر لائیے تاکہ آنے والی نسلیں آپکے تجربات سے فائدہ اٹھائیں اور اگر کوئی ایک بھی آپ لوگوں کے نقش قدم پر چل پڑا تو ہوسکتا ہے کہ اس ملک پر چھائے ہوئے اندھیروں میں کچھ روشنی لوٹ آئے کیونکہ آپ بھی قوم کا افتخار ہیں۔