”خوش قسمتی” سے پاکستان کو ہمیشہ ایسی قیادت میسر رہی جس نے قوم کا وسیع تر مفاد مدِنظر رکھا۔ لوگوں کا کیا ہے، وہ تو بس ایسے ہی کیچڑ اچھالنے کی مرضِ بَد میں مبتلاء ہیں۔ اب یہی دیکھ لیجئیے کہ ایوب خاں نے قوم کے وسیع تر مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے وَن یونٹ بنا کر بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی تاکہ ”بوجھ” اتارا جائے۔ تیل کی دولت سے مالامال بلوچستان کا ایک ٹکڑا جذبۂ خیرسگالی کے تحت ایران کے حوالے کیا جسے اب ایرانی بلوچستان کہا جاتا ہے۔مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کو محض اِس لیے انتخابی شکست سے دوچار کروایا گیا کہ ساری ”شرارتی” اور ملک دشمن اپوزیشن اُن کی پشت پر تھی (ہمارے ہاں یہ اصول طے کہ جو حکومت میں ہو صرف وہی محبِ وطن، باقی سب ملک دشمن)۔
بھٹو اور یحیٰی نے سوچا کہ ”جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں”۔ مشرقی پاکستان ہماری معیشت پر بوجھ ہی تو تھا جسے ہم بلا وجہ اپنے ساتھ نتھی کیے پھرتے تھے اِس لیے قوم کے وسیع تر مفاد میں اُسے الگ کر دیا گیا حالانکہ شیخ مجیب الرحمٰن نے تو اپنے تئیں ساتھ رہنے کی بھرپور کوشش کی۔ ضیاء الحق کے نزدیک قومی مفاد عزیزتر اور پرویزمشرف کے نزدیک عزیزترین۔ ضیاء الحق نے اسلام کا نعرہ بلند کرکے پاکستان میں کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا۔ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار کے حوالے بھی قوم کے وسیع تر مفاد میں ہی کیا گیا۔ پرویزمشرف کا تو نعرہ ہی ”سب سے پہلے پاکستان” تھا۔ اُس نے اپنا کہا سچ کر دکھایا اورقوم کے وسیع تر مفادمیں ایسے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے کہ عقل حیراں۔ اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو اکبر بگتی کے قتل اور سانحۂ لال مسجدمیںقوم کا وسیع تر مفادہی مضمر تھا کہ یہ لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیںآتے تھے۔ بھلا اکبر بگتی کو دَمِ واپسیں تک پاکستان زندہ باد جیسے نعرے لگانے کی کیا ضرورت تھی اور لال مسجد والوں کو تبلیغِ دیں کی کس نے اجازت دی تھی؟ 12 مئی کو کراچی میں خون کی ہولی بھی اسی وسیع ترمفاد کے تحت کھیلی گئی اور پاکستان کو عملی طور پر امریکہ کے حوالے کرنے میں یہی مفاد مدِنظر تھا۔ بقول پرویزمشرف اگر وہ ایسا نہ کرتا تو امریکہ ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیتا۔ عافیہ صدیقی سمیت بیشمار پاکستانیوں کو امریکہ کے ہاتھ بیچنے کا کارنامہ بھی قوم کے وسیع تر مفاد میں ہی سرانجام دیا گیا۔ اب ایسے بیشمار کارنامے سرانجام دینے کی خوشی میں ہی پرویزمشرف بیرونی دنیا کے نائٹ کلبوں میں ڈانس کرتا پھرتا ہے۔
یہ مختصر سا احوال تو اُس محبِ وطن قیادت کا جسے عرفِ عام میں ”آمرِ مطلق” کہا جاتا ہے لیکن ہماری سیاسی قیادت بھی کسی سے کم نہیں۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرۂ مستانہ بلندکرکے اقتدار میں آئے۔ اُنہوں نے قوم کے وسیع تر مفادمیں سب کچھ ”نیشنلائز”کر دیا، بڑے بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار سڑکوں پر آگئے لیکن پھر بھی بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان نہ دے سکے۔ بالآخر اُنہیں بھی کہنا پڑا ”میں کوئی سونے کا انڈا دینے والی مرغی نہیں، محنت کروگے تو سب کچھ مل جائے گا”۔ یہی دِل خوش کُن نعرہ لے کر موجودہ حکومت ”صبر” کی تلقین کر رہی ہے لیکن بھوکے پیٹ صبر کہاں، قرار کہاں۔ قوم نے تو اپنے وسیع تر مفاد میں کپتان کو شیروانی پہنا دی لیکن ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا”۔ ہر روز ایک نیا دھماکہ، سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، ڈالر آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہوا 151 روپے سے اوپرپہنچ چکا۔ معاشی ماہرین کے مطابق یہ ابھی اور اوپر جائے گا۔ سوشل میڈیا پر فوادچودھری کے حوالے سے ایک لطیفہ وائرل۔ کسی نے فوادچودھری کو بتایا کہ ڈالر اوپر جا رہا ہے تو چودھری صاحب نے فرمایا ”اگر اوپر جا رہا ہے تو کیا ہوا، سبھی نے اوپر ہی جانا ہے”۔ سونے کی طرف بس دیکھا ہی جا سکتا ہے، خریدا نہیں جا سکتا۔ سونا کیا، یہاں تو کسی میں سبزی تک خریدنے کی سَکت باقی نہیں بچی۔ پٹرول مہنگا، ڈیزل مہنگا، تیل مہنگا، بجلی مہنگی، گیس مہنگی، سستی ہے تو صرف موت۔ اِسی لیے خودکشیوں کا تناسب پہلے سے کہیں زیادہ۔ اِس سب کے باوجود قوم کے وسیع تر مفاد میں آنسو بہاتے رَہنمایانِ قوم کا یہ عالم کہ جعلی حاضریاں لگا کر 500 روپے کی ”دہاڑی” لگاتے ہوئے۔ رؤف کلاسرا کے مطابق پارلیمنٹ کے اندر اجلاس میں 60 لوگ شریک تھے جبکہ باہر حاضر رجسٹر پر 250سے زائد ارکان کی حاضری لگی ہوئی تھی۔۔۔۔ رہی سہی کسر دہشت گردی نکال رہی ہے۔ دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پانے کے بعد قوم نے سکھ کا سانس لیے تھا لیکن وہ اب پھر سر اُٹھا رہی ہے۔ تقریباََ ہرر وز کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی دھماکہ ہو جاتا ہے اور قوم یہ سوچنے پر مجبور کہ ”چوہے” پھر اپنے بِلوں سے نکل آئے ہیں۔ کراچی پھر تاریک دَور کی طرف پلٹ رہا ہے لیکن وزیرِاعظم کو چور چور، ڈاکو ڈاکو کی گردان سے فرصت نہیں کہ یہی قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے۔
وزیرِاعظم کے 100 دنوں میں قوم کی تقدیر بدلنے کے دعوے یوٹرن کی نذر ہوگئے ۔ 200 ارب ڈالرز کی واپسی کا کہیں نام ونشان نہیں، شنید ہے کہ 35 پنکچروں کی طرح یہ بھی محض ایک سیاسی بیان تھا۔ قوم کے وسیع تر مفاد میں وفاقی کابینہ کی تعداد 48 تک پہنچا دی گئی تاکہ اپوزیشن کو مُنہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ مانا کہ کپتان دیانتدار ہے لیکن کیا عقلِ سلیم کا مالک بھی؟۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ایسی ”پھٹیچر” کابینہ کس نے تشکیل دی اور اِس میں کونسا قومی مفاد مضمر ہے؟۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ وزیرِاعظم کے مشیران کی فوجِ ظفر موج میں کچھ آئی ایم ایف کے نمائندے بھی ہیں۔ مذاکرات میں میز کے دونوں طرف آئی ایم ایف کے نمائندے ہی بیٹھے تھے۔ گویا ”وہ خود ہی تماشہ ہیں، وہ خود ہی تماشائی”۔ اِسی لیے 6 ارب ڈالر کی منظوری مل گئی۔ آئی ایم ایف یہ قرض 39 ماہ میں دے گا لیکن وصول شدہ قرض کی آدھی رقم 2 سالوں میں واپس کرنا ہوگی۔ سچ کہا تھا کپتان نے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے خودکشی۔
چلیں جو ہوا سو ہوا، سوال یہ ہے کہ چین، سعودی عرب اور امارات سے جو آٹھ، دَس ارب ڈالر ملے تھے، وہ کہاں گئے؟۔ نوازلیگ کا دعویٰ کہ حکومت چھوڑتے وقت قومی خزانے میں زرِمبادلہ کے زخائر 19 ارب ڈالر تھے۔ اب قومی خزانے کے یہ ذخائر.8 8 ارب ڈالر ہیں۔ سوال یہ بھی کہ اگر اتنے ڈالروں سے ”کَکھ” نہیں بنا تو سواتین سال میں آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر ہمالیہ کی کونسی چوٹی سَر کر لیں گے؟۔ سلگتا ہوا سوال یہ کہ اِن حالات میں قوم کب تک صبر کا دامن تھامے رکھے گی؟۔ قومی درد میں ڈوبے حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ کہیں ہم کسی خونی انقلاب کی طرف تو نہیں بڑھ رہے۔
ہماری قوم بھی رَہنماؤں کے نقشِ قدم پر۔ یہ بھی سب سے پہلے اپنا مفاد ہی عزیز رکھتی ہے۔ امریکہ یاترا سے واپسی کے بعد ہمارے پاس کچھ ڈالر بچ رہے جنہیں ہم نے اگلی ”یاترا” کے کیے سینت سنبھال کے رکھ لیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ڈالر کی پرواز میں جوں جوں تیزی آتی ہے، ہمارا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگتا ہے اور اگر ڈالر کا ریٹ بیس، تیس پیسے کم ہو جائے تو عجیب سی بے چینی اوور بے کلی طاری ہونے لگتی ہے۔ ہمیں اِس سے کچھ لینا دینا نہیں کہ اگر ڈالر کا ریٹ ایک روپیہ بڑھ جائے تو ہمارے بیرونی قرضے 700 ارب بڑھ جاتے ہیں۔ یہ رقم حکومت نے ادا کرنی ہے جس نے ہم سے پوچھ کر تو حکومت سنبھالنے کا ”پنگا” نہیں لیا تھا۔ کسی نے بَیل کو بددعا دی ”ڈھگیا! تَینوں چور لَے جان”۔ بَیل نے جواب دیا ”سائیاں تے پَٹھے ای کھانے نے”۔ مطلب یہ کہ بَیل کو کسی بھی ”کھرلی” پر باندھ دو، اُس نے تو چارا ہی کھانا ہے۔ یہی سوچ پوری قوم کی ہے کہ حکومت خواہ کوئی بھی آجائے، اُس نے تو محنت مزدوری کرکے ہی اپنا پیٹ پالنا ہے۔ جب قوم کی یہ سوچ اور اپروچ ہو اور اُسے ادراک ہی نہ ہو کہ روزافزوں قرضوں کا بوجھ بالآخر اُسی نے اُٹھانا ہے تو پھر ترقی کا خواب بھول ہی جائیے۔ یہی ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی یہی ہوتا رہے گاکہ جس کسی نے سہانے سپنے دکھائے، ہم اُسی کے پیچھے بگٹٹ۔
جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں، اُسی طرح سبھی قوم کے وسیع تر مفادکے علمبردار بھی نہیں ہوتے۔ پاکستان میں بھی ایسی مثالیں موجود۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو”محسنِ پاکستان” کہلوانے کا بہت شوق تھا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر اچھی بھلی پُرتعیش زندگی چھوڑ کرپاکستان آئے اور وطنِ عزیز کو ایٹمی قوت بنا کر دَم لیا لیکن ہوا یہ کہ اُنہیں ٹی وی پر آکر قوم سے معافی مانگنی پڑی۔ دراصل اُنہوں نے امریکہ کا مفاد مدِنظر نہیں رکھا اور جو امریکہ کا مفاد مدِنظر نہیں رکھ سکا، وہ قوم کا مفاد کیا خاک مدِنظر رکھے گا۔ اُس کا انجام ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہونا اظہرمِن الشمس۔ بھٹو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے جرم میں سولی پر جھول گئے، نواز شریف ایٹمی دھماکہ کرکے جلاوطن ہوئے اور اب سی پیک کی صورت میں معاشی دھماکہ کرنے کے لیے کوشاںمیاں صاحب کوٹ لکھپت جیل۔ آئیے! تاریخ کو فیصلہ کرنے دیں کہ پاکستان کا ”ٹیپو سلطان” کون اور ”میرجعفر” کون؟۔