صحرائے عرب سے نور کی کرنیں پھوٹیں اور ظلمتوں کے اندھیرے چھَٹ گئے۔ تہذیبِ حجاز ظلمتِ مغرب میں مثلِ طور روشن ہوئی اور شرق تا غرب آئینِ رسولِ ۖ ہاشمی کی عملداری کا ڈنکا بجا۔ علم و حکمت قومِ مسلم کی میراث ٹھہری اور نظامِ عدل نے اپنوں اور غیروں میں تمیز ختم کر دی۔ کسی عربی کو عجمی پر اور گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہ رہی سوائے اعمالِ صالح کے۔ پھر حالات نے پلٹا کھایا۔ مسلم اُمّہ محوِ خواب ہوئی اور اقوامِ عالم میں رسوائیاں اُس کا مقدر ٹھہریں۔اقبال نے کہا
بُجھ کے بزمِ ملّتِ بیضا پریشاں کر گئی اور دیا تہذیبِ مغرب کا فروزاں کر گئی
اب یہ عالم کہ بربطِ زماں میں مسلم اُمّہ کی عظمتوں کے گیت مفقود، فقط نغمۂ یاس اور وہ بھی دھیمے سروں میں۔ وجہ اظہرمِن الشمس کہ جب ہم تارکِ آئینِ رسولۖ ہو کر شعارِ اغیار کے شیدائی بنے تو ربّ ِ کائینات کے معتوب ٹھہرے اور اغیار کی سازشیں ثمر بار ہوئیں۔ اب حالت یہ کہ مسلم اُمّہ آپس میں ہی غضب ناک اور باہم دست وگریباں۔ غیرت وحمیت کا نام ونشان نہیں اور اخوت ومحبت کی جگہ نفرت و عداوت۔ میرِکارواں مصلحتوں کے شکار اور متاعِ دین ودانش کا یہ عالم کہ دین فرقوں اور گروہوں میں بٹ چکا اور دانش کی تیغِ آبدار اقوامِ مغرب کا اثاثہ قرار پا چکی۔ اسلاف کے کارنامے کتابوں کی زینت اور ہمارا فخر محض ”پدرم سلطان بود”۔ میرا ربّ تو اُس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود اُسے اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو لیکن ہم اپنی حالت بدلنے کی بجائے غیروں کے محتاج۔ جب اپنے ربّ سے ہماراتعلق محض ایک بگڑے بچے کا سا تو پھر اپنی رسوائی اور غیروں کی حاکمیت پر گلہ کیسا۔ اگر نریندر مودی کشمیر ہڑپ کر گیا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس اسرائیل کے حوالے کر دیا تو نوحہ خوانی کیوں؟۔
قوموں کی دوستیاں اپنے مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔ امریکہ کو بھی اپنے مفادات عزیز۔ اِسی لیے امریکہ کو اپنا اسلحہ اور سامان بیچنے کے لیے پاکستان سے کہیں زیادہ بھارت میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی سے دوستی کی بنیاد بھی باہمی مفادات ہیں۔ اُنہوں نے وزیرِاعظم عمران خاں کو امریکہ آنے کی دعوت دی اور اُن کی دوستی کا دَم بھرتے ہوئے اُن کی تعریف میں رطب اللساںہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ دراصل افغان طالبان پر پاکستان کے اثرورسوخ کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ نریندر مودی کی درخواست پر کشمیر میں ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ اِس ثالثی کا پاکستان میں خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا لیکن ہوا یہ کہ 5اگست 2019ء کو بھارتی وزیرِاعظم نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کا خاتمہ کروا کے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کر لیا۔ آر ایس ایس کے نمائندے نریندر مودی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بھارتی شہریت کے قانون میں ترمیم کرکے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت آکر آباد ہونے والے مسلمانوں کو حقِ شہریت سے بھی محروم کر دیا۔
حقِ شہریت میں ترمیم مودی کی فاش غلطی تھی جس نے نہ صرف بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک کر دیا بلکہ بھارت سمیت اقوامِ عالم میں بھی ہنگامہ بپا ہو گیا۔ اِس ردِعمل سے اقوامِ عالم کی توجہ ہٹانے کے لیے اب بھارت جنگی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی وزیرِاعظم نے بدھ کے روز نیشنل کیڈٹ کورسے خطاب کے دوران ہرزہ سرائی کی انتہا کرتے ہوئے کہا کہ بھارت سات سے دَس دن میں پاکستان کو شکست سے دوچار کر سکتا ہے۔ اُس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان پر دو فضائی حملوں کے بعد مقبوضہ کشمیر میں امن پیدا ہوگیا اور مسٔلے کا حل کر لیا گیا۔ تاریخی حقائق مگر اِس کے بالکل برعکس۔ بھارتی ”سورما” بالاکوٹ کے ویرانے میں بم پھینک کر فرار ہوگئے جس کا نظارہ پوری دنیا نے کیا لیکن پاکستان کا جواب مُنہ توڑ۔ ہمارے شاہینوں نے نہ صرف بھارت کے دو مِگ 21 مار گرائے بلکہ اُس کا پائلٹ ابھے نندن میں گرفتار کر لیا جسے بعد میں جذبۂ خیر سگالی کے تحت رہا کیا گیا۔ رہا سات سے دَس دنوں میں تسخیرِپاکستان کا خواب، تو یہ خواب بھارت نے 1965ء میں بھی دیکھا تھا جب بھارتی جرنیلوں نے لاہور کے جم خانہ کلب میں شراب کے جام لنڈھانے کا احمقانہ خواب دیکھااور سترہ روزہ جنگ میں ہزیمتوں سے دوچار ہوئے۔
بھارتی وزیرِاعظم کی ہرزہ سرائی کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے مُنہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو فوج سات عشروں میں اسّی لاکھ کشمیریوں کو شکست نہیں دے سکی، 21 کروڑ پاکستانیوں کو کیسے دے سکتی ہے۔ اُنہوں نے کہا ”بھارت دَس روز میں پاکستان کو ختم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ بات صرف سات یا دَس دنوں کی نہیں، اِس سے پہلے اور بعد کی بھی ہے۔ افواجِ پاکستان اسلحے کے زور پر نہیں، جذبۂ ایمانی اور عوام کی حمایت سے لڑتی ہیں۔ گزشتہ سال فروری میں بھی باور کرا چکے کہ جنگ شروع وہ، ختم ہم کریں گے”۔ آر ایس ایس کے نمائند نریندر مودی کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بھارت سے کہیں بڑھ کر ہے اور اگر یہ صلاحیت نہ بھی ہوتی تو پھر بھی جذبۂ شوقِ شہادت سے سرشار پاکستان کا بچہ بچہ مادرِوطن کی آن بان شان پر ہمہ وقت کَٹ مرنے کو تیار۔ پاکستان پر حملہ کرنے کی صورت میں تحقیق کہ بھارت کی ”داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں”۔
بھارتی وزیرِاعظم کے دوست امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کے ساتھ وہی کچھ کیا جو مودی مقبوضہ کشمیر پر کر چکا۔ مودی نے کشمیریوں سے مذاکرات کیے بغیر کشمیر ہڑپ کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کو مذاکرات کی میز پر لائے بغیر دو ریاستی فارمولے پر مبنی امن منصوبہ پیش کر دیا۔ یہ دراصل امن منصوبہ نہیں، مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا منصوبہ ہے۔ پہلے بھی عرض کیا جا چکا کہ مسلم اُمّہ باہم جوتم پیزار جس کی بنا پر رسوائیاں اُن کا مقدر۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ایک خاص منصوبے کے تحت عالمِ اسلام کو ایک دوسرے سے لڑایا جا رہا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں یمن میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو سعودی عرب اور مصر نے متحارب دھڑوں کا ساتھ دیا۔ 1970 ء میں فلسطین کی پی ایل او اور اُردنی حکومت کے فوجی دستوں میں جھڑپیں ہوئیں۔ 1975ء سے 1985ء تک لبنان سول وار کا شکار رہا۔ 1980ء میں عراق نے ایران پر حملہ کیا اور 1990ء میں کویت پر چڑھ دوڑا۔ شام کی خانہ جنگی اور یمن کی صورتِ حال سب کے سامنے۔ پاکستان کے بھی برادر اسلامی ممالک ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں اتارچڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ جب پورے عالمِ اسلام کی یہ صورتِ حال ہو تو پھر غیروں کی بالادستی اظہرمِن الشمس۔
فلسطین اِس وقت عالمی تنہائی کا شکار نظر آتا ہے۔ مصر جو کبھی فلسطین کا جذباتی حامی ہوا کرتا تھا، اُس نے 1976ء میں امریکی امداد کے لالچ میں اسرائیل سے امن معاہدہ کر لیا۔ اُردن بھی پیچھے ہٹ گیا اور اسرائیل سے تعلقات استوار کر لیے۔ فلسطین کے حامی لیبیا، شام اور عراق کا حشر سب کے سامنے اور اب صورتِ حال یہ کہ متحدہ عرب عمارات ، بحرین اور عمان نے ٹرمپ فارمولے کی حمایت کر دی جبکہ سعودی عرب نے فریقین کے مابین مذاکرات پر زور دیا۔
ٹرمپ فارمولے کو یکسر مسترد کرنے والے صرف ترکی، روس اور ایران ہی باقی ہیں۔ ترک صدر طیب اردوان کی دبنگ آواز پورے عالمِ اسلام کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی۔ اُنہوں نے کہا کہ بیت المقدس ہاتھ سے چلا گیا تو پھر ہم مکّہ اور مدینہ بھی نہیں بچا سکیں گے۔ اُنہوں نے ٹرمپ منصوبے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کو خبر دار کرتے ہوئے کہا ”بیت المقدس مسلمانوں کا مقدس ترین مقام ہے جسے کبھی اسرائیل کے حوالے نہیں کریں گے”۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے اِس فارمولے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ”امریکی صدر اور اسرائیلی وزیرِاعظم کو کوئی حق نہیں کہ وہ فلسطینی قوم کے حقوق پر سودے بازی کریں۔ القدس برائے فروخت نہیں۔ ہم ٹرمپ کا یہ منصوبہ تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیں گے”۔ لبنانی تنظیم حزب اللہ نے بجا طور پر کہاکہ اگر چند عرب ریاستیں غداری نہ کرتیں تو یہ منصوبہ کبھی سامنے نہ آتا۔ مکرر عرض ہے کہ امریکہ کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ وہ تو ہر وہ کام کرے گا جس میں اُسے فائدہ پہنچنے کی اُمید ہو۔ سوال مگر یہ کہ کیا عالمِ اسلام بھی کبھی اپنے مفادات کو سامنے رکھے گا یا پھر یوں ہی رسوا ہوتا رہے گا۔