تحریر : اویس خالد بغداد میں تباہی مچانے کے بعد ایک دن ہلاکو خان کی بیٹی گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے باپ کے ہاتھوں مقبوضہ ہونے والے علاقے کی سیر کرنے کی غرض سے نکلی۔ایک مقام پر اس نے دیکھا کہ ایک مسلمان عالم ایک مجمعے سے خطاب کر رہا ہے اور لوگ ہمہ تن گوش ہو کر اس کا وعظ سماعت کر رہے ہیں۔شہزادی نے اپنے غلام سے کہا کہ جائو اور اس عالم کو بلا کر لائو۔غلام بلا لایا،جب وہ آئے تو شہزادی نے استفسار کیا کہ تم لوگوں سے کیا کہہ رہے تھے؟ اس عالم نے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ میں پروردگار کی تعریف و توصیف بیان کر رہا تھا۔اس پروردگار کی کہ جس کو چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اسے حقیر کرتا ہے۔یہ سن کر شہزادی مسکرائی اور کہنے لگی کہ پھر مانو اس بات کو کہ تمہارے پروردگار نے ہمیں بادشاہت عطا کی گئی ہے ،ہمیں آقا اور تمہیں غلام بنایا ہے۔عالم کچھ دیر توقف کے بعد گویا ہوئے کہ اے شہزادی پہلے یہ بتائو کہ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ کتے کیوں رکھے جاتے ہیں؟ شہزادی نے کہا سادہ سی بات ہے کہ بکریوں کی حفاظت کے لئے،جب کوئی بکری اپنے ریوڑ سے بچھڑ جاتی ہے اور اپنے مالک سے دور ہو جاتی ہے تو وہ کتے گھیر کر اس بکری کو واپس ریوڑ میں اپنے مالک کے پاس لے آتے ہیں۔
عالم نے جواب دیا کہ تم نے بالکل درست کہا ۔تم لوگوں کی حیثیت بھی ایسی ہی ہے،ہم اپنے مالک سے بچھڑ گئے ہیں اور اس نے تمہیں ہمارے پیچھے لگا دیا ہے کہ ہمیں گھیر کر واپس اپنے پروردگار کے پاس لے آئو۔جس دن ہم واپس اپنے مالک کے پاس آگئے اُس دن تمہارا کام ختم ہو جائے گا۔یہ امربھی قابل توجہ ہے کہ جب بغداد پر حملہ ہوا تو اس وقت مسلمان قوم امورِخاص چھوڑ کرکئی روز سے فقط اس بات پر مناظرہ کر رہی تھی کہ مسواک کی لمبائی کتنی ہونی چاہیے۔اور پھر بعد کے مناظر نے تاریخ میںلکھوایا کہ نہ مسواک رہی اور نہ مسواک والے۔دشمن ہر لحظہ سر پر ہے اور پوری قوم غیر ضروری بحث و مباحثے میں الجھی ہوئی ہے،کسی کی شادی کو قوم کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جاتا ہے تو کسی کی طلاق کوقومی سلامتی کا سب سے اہم مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ساری قوم کئی کئی روز تک چوکوں اور چوراہوں میں،گھروں اور دفاتر میں اس پر اپنے ماہرانہ تبصرے کرتے پھرتے ہیں،بسا اوقات تو اتنے جذباتی ہو جاتے ہیں کہ بات آپس میں تلخ کلامی اور بعد ازاں دھینگا مشتی اور پھر قطع تعلقی تک بھی جا پہنچتی ہے۔آج بھی ہمارا حال اس سے مختلف نہیں ہے۔ہم اصل راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور ہمیں راہ پر لانے کے لئے ہمارے پروردگار نے ایسے ہی جابر،ظالم،تند خو ،دریدہ دہن اور درندہ صفت حاکموں کو ہم پر مسلط کر دیاہے۔ پاکستان عرصہ دراز سے حالت جنگ میں ہے اور دہشت گردی کا شکار ہونے والوں میں سر فہرست ہے۔
اس دہشت گردی نے اب تک ہزاروں نہتے مسلمانوں کی جان لی ہے،پاکستان نے اس ضمن میں لازوال قربانیاں دی ہیں اورابھی تک دے رہا ہے۔شہادتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔امریکہ جو بار بار دس ارب ڈالر کا طعنہ دیتا ہے اسے یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان اب تک دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جانی نذرانے دینے کے ساتھ ساتھ اپنا دو سو ارب ڈالر بھی خرچ کر چکا ہے۔ استعماریت پسند امریکہ جو خود بے بنیاد الزامات کی آڑ میں کئی ممالک کا امن تباہ کر چکا ہے،خود کو سب سے بڑا امن پسند سمجھتا ہے اور پاکستان بے انتہا قربانیوں کے باوجود بھی اسے خوش نہیں کر سکا۔وہ اس خطے میں طاقت کے توازن کو اپنی مٹھی میں رکھنے کے لئے کبھی ہما کسی کے سر پر بٹھاتا ہے تو کبھی کسی کو اکیلا کر کے کمزور کرنے کی دھمکی دیتاہے۔حضرت اقبال نے فرمایا تھا:
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ہم نے اقبال کی شاعری کو محض اپنی جذباتی تقریروں میں جوش کا تڑکا لگانے کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔نہ سمجھے اور نہ اپنایا،اب حالت یہ ہے کہ راقم نے لکھا تھا
وہ طائر لاہوتی اغیار کے نرغے میں ہے قید اقبال جسے لقمہ ذلت سے چاہتے تھے بچانا
کب تک ہم ڈالروں کے عوض پرائی جنگ میں خود کو جھونکتے رہیں گے؟اتنے قرضے لینے کے بعد یا تو عوام کی حالت زار بدل کر خوشحالی کی سیج پر بیٹھ گئی ہوتی۔عوام بنیادی ضرورتوں کے چنگل سے نکل کر سہولیات کے مزے لوٹ رہی ہوتی،ہر پاکستانی عیش و عشرت سے پورے ٹھاٹھ باٹھ سے گذر اوقات کر رہا ہوتا تو بھی بات سمجھ میں آتی مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے،پہاڑ جیسے قرضے لینے کے بعد بھی عوام دو وقت کی روٹی کو ترستی ہے۔ڈگری سے نوکری کے حصول تک کے سفر میں کامیابی سے پہلے بڑھاپا آ جاتا ہے۔بڑے بڑے سرکاری محکمے گھُٹ گھُٹ کر سانس لے رہے ہیں،امن و امان سے لے کر صحت و تعلیم تک ہر سہولت مفقود ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہم سے کبھی خوش ہونا ہی نہیں چاہتا،چین کب تک ہماری ایماء پر غیرت کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔اگرچہ ہم اس وقت اس حالت میں نہیں ہیں کہ اسے کرارا جواب دے سکیں اور مصلحت کا تقاضا ہے کہ دینا بھی نہیں چاہیے لیکن اب اس راہ کے مسافربننے کی راہ ضرور اپنا لینی چاہیے جہاں خودداری و حمیت کا تاج و تخت ہمارا منتظر ہے۔
حکومت سے بھی یہ مطالبہ نہیں کہ وہ طاقت سے ٹکر لے مگر یہ مطالبہ ضرور ہے کہ خود طاقتور ہونے کی سبیل کرے۔ قوم جو پہلے ہی کسمپرسی کی حالت میں ہے ۔غربت کی لکیر کے نیچے رہ کر بھی جینا سیکھ گئی ہے۔وہ ہر مشکل میں گزارا کر لے گی بس درجہ بدرجہ مزید بھیک لینی بند کر دی جائے ۔اپنے ملک کے ممکنہ وسائل کوبروئے کار لا کر اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا سامان کیا جائے۔اگر ایسا ہو گیا تو پھرپوری دنیا میںکسی بھی میدان میں پاکستانی قوم کا کوئی ثانی نہیں ہو گا۔ایجادات کی قطاریں لگ جائیں گی،دریافتوں کے دریا بہیں گے۔پھر چاہے امریکہ ہو یا روس کسی سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہو گی،کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی حاجت نہیں رہے گی۔نیابت و امامت کے لئے پھر حجاز سے نام پکارا جائے گا۔ایک طرف عزت کی مسند ہے اور دوسری طرف ذلت کی دلدل، لیکن فیصلہ بحیثیت قوم ہمیں مل کر کرنا ہے،ورنہ وہ کارساز ہے جس سے مرضی کام لے لے،ابھی ہم یہ دعا تو کر ہی سکتے ہیں کہ۔۔(بقول راقم) نمرود اٹھ گیا ہے مچھر کو بھیج دو قاسم کو جو بلاوے،دختر کو بھیج دو